جرمنی میں یہودی فلم فیسٹول
27 اپریل 2010جرمنی کے دارالحکومت برلن میں دو روز قبل فرانسیسی ہدایت کار ژاں ژاک زبرمان کی طربیہ فلم ’’وہ میری عورت ہے‘‘ سے اپنی طرز کے اس منفرد فلمی میلےکا باقاعدہ آغاز ہوا۔ فرانسیسی ہدایتکار کی فلم کا موضوع ہم جنسیت پرستی پر مبنی ہے۔ اس موضوع پر سن 1998 میں بھی فلم بن چکی ہے۔ مبصرین کے نزدیک نئی فلم اُسی پرانی فلم کا ری میک ہے۔
اس سال کے یہودی فلم فیسٹول میں امریکہ سمیت کئی دوسرے ملکوں سے تقریباً دو درجن اہم فیچر فلمیں میلے میں شامل کی گئی ہیں۔ بقیہ ملکوں میں برطانیہ، ہالینڈ، ارجنٹائن، روس، جرمنی اور اسرائیل شامل ہیں۔ اسرائیل میں بنائی جانے والی چند نئی فلموں کا ورلڈ پریمیئر بھی اس فلمی میلے میں ہوگا۔ ان اہم فلموں کے ساتھ 16 دوسری فیچر فلمیں بھی ہیں، جو اس میلے میں پیش کی جائیں گی۔ فیچر فلموں کے ساتھ ساتھ دستاویزی فلموں کو بھی شائقین کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ جاری میلے میں لندن آرکسٹرا کے کنڈکٹر آندرے پراون پر بنائی گئی دستاویزی فلم کو خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔ پراون کو ہالی ووڈ کی فلموں میں موسیقی موزوں کرنے پر چار آسکر ایوارڈز سے بھی نوازا گیا تھا۔ وہ 20 سال تک لندن آرکسٹرا کے ساتھ وابستہ رہے تھے۔
اس سال کے فلمی میلے کو انعقاد کے لئے مالی مسائل کا سامنا بھی رہا ہے۔ میلے کے شروع کرنے کے لئے منتظمین نے دو لاکھ یورو کے فنڈ کو مختلف حوالوں سے اکھٹا کیا۔ اس میلے کے انعقاد کے لئے برلن شہر کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ لاٹری کے قومی ادارے لوٹو فاؤنڈیشن اور مقامی آبادی کی جانب سے عطیات بھی دیئے گئے تھے۔
یہودی فلمی فیسٹول اپنے طور پر ایک ایسا میلہ ہے، جس میں کسی بڑے ایوارڈ سے نئی فلموں کو نوازا نہیں جاتا۔ اس کو ایک بلند فورم کا درجہ دیا جاتا ہے، جہاں مبصرین اپنی آراء کا اظہار کرتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے کئی شہروں میں اس نوع کے فلمی میلوں کا سالانہ بنیادوں پر باقاعدگی سے اہتمام کیا جاتا ہے۔ امریکہ کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں آباد یہودی اس انداز کے میلے سے اپنی برادری اور دوسری کمیونٹی کے ساتھ ثقافتی سرگرمیوں اور رابطوں کو جاری رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ برلن کے یہودی فلمی میلے میں مختلف طبقہ ہائے فکر کے 40 ہزار تک لوگ شرکت کرتے ہیں۔ جرمن دارالحکومت کے ثقافتی کیلنڈر پر یہودی فلم فیسٹول کو خاصی وقعت حاصل ہے۔
رپورٹ : عابد حسین
ادارت : عاطف توقیر