جرمنی، ’ٹیلی میڈیسن‘ میں ابھی ایک قدم پیچھے
30 دسمبر 2013بین الاقوامی سطح پر موازنہ کر کے دیکھا جائے تو جرمنی میں ڈاکٹروں کی تعداد کسی طور بھی کم نہیں ہے۔ یہاں ہر ایک ہزار مریضوں کے حصے میں 3.84 ڈاکٹرز آتے ہیں۔ امریکا میں یہ تناسب 2.46 ہے۔ تاہم اس طرح کے اعداد و شمار سے یہ بات زیادہ واضح نہیں ہوتی کہ آیا کسی ملک میں زیادہ تر ڈاکٹر کسی ایک ہی علاقے میں ہیں یا مختلف علاقوں میں برابر برابر پھیلے ہوئے ہیں۔
’ٹیلی میڈیسن‘ کی جرمن سوسائٹی کے چیئرمین وولف گانگ لوز کہتے ہیں:’’کچھ دیہی علاقوں میں صورتِ حال یہ ہے کہ کسی مریض کو طبی صلاح و مشورہ کرنے کے لیے پورے دن کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایسے مسائل ہیں، جن کا حل تلاش کرنا چاہیے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ایک حل تو یہ ہے کہ ڈاکٹر لائیو ویڈیو سٹریم کے ذریعے مریض کو اُس کے گھر پر ہی صلاح و مشورہ فراہم کرے۔
ڈیجیٹل علاج معالجے کا یہ تصور محض ایک حد تک ہی جڑ پکڑ سکا ہے۔ مثلاً فالج یا دل کے دورے سے بچاؤ اور دیکھ بھال کے شعبے میں چھوٹے ہسپتالوں اور دیکھ بھال کے مراکز کے درمیان نیٹ ورک کے ذریعے رابطہ قائم ہے اور ضرورت پڑنے پر وہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ماہر معالجوں سے صلاح و مشورہ کر سکتے ہیں۔
دل کے عارضے میں مبتلا مریض ’ٹیلی میڈیسن‘ کی ایک مختلف شکل سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ دل کی دھڑکن وغیرہ کو ماپنے والے کچھ آلات مرکزی میڈیکل نیٹ ورکس کے ساتھ جُڑے ہوتے ہیں اور مریض کی حالت اچانک بگڑ جانے کی صورت میں قریب ہی موجود ڈاکٹر کو مطلع کر دیتے ہیں۔
تاہم جرمنی میں ’ٹیلی میڈیسن‘ کو کئی طرح کی رکاوٹوں کا بھی سامنا ہے۔ اس ملک میں ڈاکٹروں کو اُس وقت تک کسی مریض کی ’ٹیلی میڈیسن‘ کے ذریعے تشخیص کی اجازت نہیں ہے جب تک کہ وہ کم از کم ایک مرتبہ مریض کے ساتھ بالمشافہ ملاقات نہ کر چکے ہوں۔ اس کے برعکس سوئٹزرلینڈ میں ٹیلیفون یا ویڈیو وغیرہ کے ذریعے دور افتادہ مقامات سے بھی مریض کے طبی معائنے پر اتنی زیادہ پابندیاں نہیں ہیں۔ مثلاً سوئس شہر بازل میں قائم کمپنی ’مَیڈ گیٹ‘ ٹیلیفون پر مریضوں کو صلاح و مشورہ بھی دے سکتی ہے اور دوائیں بھی تجویز کر سکتی ہے۔
جرمنی میں مریض اپنے فیملی ڈاکٹر یا کسی ماہر معالج کے ساتھ ذاتی رابطے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جرمن میڈیکل ایسوسی ایشن کے چیئرمین فرانس بارٹمان کے خیال میں یہی وجہ ہے کہ ’ٹیلی میڈیسن‘ کا تصور ایک اوسط جرمن شہری کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ اسکنڈے نیویا کے ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں:’’اگر آپ سویڈن میں ہیں تو آپ ایک نمبر پر ٹیلیفون کر کے ایک نرس کے ساتھ بات کر سکتے ہیں، جو یہ فیصلہ کرے گی کہ آپ کو کس سطح کے طبی مرکز میں لے جایا جانا چاہیے، وہاں ڈاکٹر کی باری کہیں آخر میں آتی ہے۔‘‘
جرمنی میں ’ٹیلی میڈیسن‘ کی راہ میں کچھ تکنیکی دشواریاں بھی حائل ہیں مثلاً کئی دیہی علاقے ابھی بھی ایسے ہیں، جہاں انتہائی تیز رفتار انٹرنیٹ دستیاب نہیں ہے، جس کے باعث ویڈیو کانفرنسنگ یا پھر مریضوں کے ڈیٹا پر مشتمل بھاری فائلز کی منتقلی تقریباً ناممکن ہوتی ہے۔ دوسری طرف ’ٹیلی میڈیسن‘ کے حامی حلقوں کے مطابق انہی دیہی علاقوں کو ’ٹیلی میڈیسن‘ کی سب سے زیادہ ضرورت بھی ہے۔
جرمن طبی ماہرین جرمن سرحدوں سے باہر ’ٹیلی میڈیسن‘ کی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔ ’ٹیلی میڈیسن‘ کی جرمن سوسائٹی کے چیئرمین وولف گانگ لوز کےمطابق فرینکفرٹ کے ایک ہسپتال اور جنوب مشرقی ایشیائی ملک برونائی کے ایک کلینک کے درمیان تعاون موجود ہے۔ جرمن ماہرین چوبیس گھنٹے میں جب بھی ضرورت ہو، ویڈیو کانفرنسگ کے ذریعے برونائی میں اپنے ساتھی ڈاکٹروں کے ساتھ رابطہ کر سکتے ہیں۔ ایک اور مثال جرمن حکومت کے ایک ترقیاتی بینک کا ویت نام میں جاری ایک ’ٹیلی میڈیسن‘ منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت دیہی علاقوں کے مختلف ہسپتالوں کو نیٹ ورک کے ذریعے دارالحکومت ہینوئے کے ایک مرکزی ہسپتال کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا۔
تاہم بارٹمان کے مطابق ’ٹیلی میڈیسن‘ کی اپنی حدود بھی ہیں۔ وہ اس حق میں تو ہیں کہ جرمنی میں ڈیجیٹل طریقہء علاج پر عائد قدغنیں نرم بنائی جانی چاہییں تاہم وہ ’ڈاکٹر اور مریض کے مابین براہِ راست رابطے کو ناگزیر‘ بھی قرار دیتے ہیں۔