جرمنی پہنچنے والے مہاجرین کیمپوں سے غائب ہونے لگے
4 نومبر 2015ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ جرمنی پہنچنے والے مہاجرین بغیر کسی اطلاع کے مہاجر کیمپوں سے غائب ہو جائیں لیکن جرمن صوبے لوئر سیکسنی میں ’اچانک لاپتہ ہو جانے والے‘ مہاجرین کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق حالیہ دنوں میں وہاں پہنچنے والے چار ہزار مہاجرین میں سے تقریباﹰ سات سو بغیر کسی اطلاع کے کہیں غائب یا روپوش ہو گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مہاجرین نے ابھی خود کو رجسٹر بھی نہیں کروایا تھا، جو کہ سیاسی پناہ کے حصول کے لیے پہلا قدم ہوتا ہے۔ تاہم مہاجرین کے روپوش ہو جانے کی ایسی اطلاعات صرف اسی وفاقی صوبے سے نہیں بلکہ جرمنی کے دیگر علاقوں سے بھی موصول ہو رہی ہیں۔
لوئر سیکسنی کی وزارت داخلہ کے ترجمان ماتھیاس آئشلر کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر یہ منع نہیں ہے، ’’یہ پناہ گزینوں کا بنیادی حق ہے کہ وہ آزادانہ نقل و حرکت کر سکتے ہیں اور اپنی رہائش گاہ چھوڑ سکتے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ ریاستی اداروں کو معلوم نہیں کہ کتنے مہاجرین کہاں پہنچ رہے ہیں اور ان کی منزل کونسے علاقے ہیں؟
اوسنابروک یونیورسٹی میں مہاجرت کے امور کے ماہر یوخِن اولٹمر کا کہنا ہے، ’’پناہ گزینوں کی گمشدگی اس بات کی بھی علامت ہے کہ ریاستی کنٹرول کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‘‘ جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزئیر کا بھی یہی کہنا ہے کہ غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد ایک ’سنگین مسئلہ‘ ہے۔ قانونی طور پر مہاجرین کو جرمن سرزمین پر قدم رکھنے کے فوراﹰ بعد حکام کو اطلاع دینا ہوتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے روزانہ ہزاروں مہاجرین جرمنی پہنچ رہے ہیں۔
یوخِن اولٹمر کا کہنا تھا کہ روپوش ہونے والے مہاجرین کوئی ایک بھی پیغام اپنے پیچھے چھوڑ کر نہیں جاتے اور کسی کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کیمپ کیوں چھوڑ رہے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ کیمپ چھوڑنے کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں اور یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا، ’’شاید وہ اس وجہ سے چھوڑ کر جا رہے ہوں کہ وہ دیہاتی علاقوں میں رہنا نہیں چاہتے۔ شاید وہ وہاں چلے گئے ہوں، جہاں ان کے رشتہ دار یا دوست پہلے ہی سے موجود ہیں، یا ان علاقوں میں چلے گئے ہوں، جو ان کے لیے قابل کشش ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک چلے گئے ہوں، مثال کے طور پر اسکنڈے نیویا کے کسی ملک میں۔‘‘
جرمنی میں ایسا کوئی بھی قانون موجود نہیں ہے، جس کے تحت جرمن سکیورٹی ادارے ان مہاجرین کو کسی دوسری جگہ جانے سے روک سکیں۔ اگر یہ غیر رجسٹرڈ مہاجرین پولیس کو کسی دوسرے علاقے میں ملتے ہیں تو رجسٹریشن کا عمل نئے سرےسے شروع کرنا پڑتا ہے۔ یوخِن اولٹمر کے مطابق ریاست کو سب کچھ اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہیے، ’’اس وقت مہاجرین اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں اور سکیورٹی ادارے سکیورٹی کی بہتر منصوبہ بندی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔‘‘