جرمنی کا افغان مشن جاری رہے گا: انگیلا میرکل
16 اپریل 2010افغانستان میں تین جرمن فوجيوں کے مارے جانے کے بعد، دو ہفتوں سے بھی کم مدت ميں مزيد چار فوجيوں کی ہلاکت کے باوجود جرمن چانسلر آنگيلا ميرکل نے کہا کہ افغانستان ميں جرمن فوجی کارروائی جاری رکھی جائے گی۔ اس حوالے سے میرکل نے امریکی ریاست کیلیفورنیا میں کہا:’’ميں يہ کہنا چاہتی ہوں کہ ميں بہت سوچ سمجھھ کر اس جرمن مشن کی حمايت کررہی ہوں تاکہ افغانستان کواس قدر مستحکم بنا ديا جائے کہ وہ خود اپنی حفاظت کرسکے۔‘‘
جرمن چانسلر نے کہا کہ وہ اس کا احترام کرتی ہيں کہ جرمنی اور امريکہ ميں بہت سے لوگوں کو افغانستان ميں فوجی کارروائی کے صحيح ہونے پر شک و شبہ ہے، لیکن ليکن اُنہوں نے کہا کہ يہ مشن ’’ہماری آزادی اور سلامتی کی ضمانت‘‘ بھی ہے۔ میرکل نے امريکہ کی مشہور سٹينفورڈ يونيورسٹی ميں تقرير کرتے ہوئے يہ بھی کہا:
’’ہميں افغانستان جيسے ملکوں، اُن کے معاشروں اور ثقافتوں، قوميتوں، قبائل اور مذاہب کے باہمی تعامل،انسانوں کے تفکرات اور تشدد پر اُس آمادگی کے اسباب کے بارے ميں کہيں زيادہ معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے، جسے روکنے ميں ہميں شديد مشکلات کا سامنا ہے۔‘‘
جرمن چانسلر، پچھلے دنوں کے دوران افغانستان کے مسئلے کواپنی اولين ترجيح بنا چکی ہيں۔ اس سے پہلے وہ کچھ پس منظر ميں رہتی تھيں اور اس حوالے سے زيادہ تر ذمہ داری اُن کے وزير دفاع کارل تھیوڈور سو گوٹن برگ اُٹھاتے تھے۔
اب وہ اس تنازعے کو اپنی ترجيح بنانے کے ساتھ ايک بڑا سياسی خطرہ بھی مول لے رہی ہيں کيونکہ افغانستان ميں جرمن فوجی مشن جرمن عوام ميں بہت غير مقبول ہے۔ جرمنی کے ايک معروف ہفت روزہ Stern کے ايک حاليہ سروے کے مطابق 62 فیصد رائے دہنگان جرمن فوج کی افغانستان سے واپسی کی حمايت کرتے ہیں۔ اس سروے میں 1004 جرمنوں سے رائے پوچھی گئی تھی۔
جرمن حکومت، افغانستان ميں اپنی فوج کو اب بہتر سازو سامان فراہم کرنا چاہتی ہے۔ وزير دفاع گوٹن برگ سڑکوں کے کنارے نصب کئے گئے بموں اور دوسرے حملوں ميں اضافے کے پيش نظر کئی سو نئی بکتر بند گاڑيوں کا مطالبہ کررہے ہيں۔ جمعرات کو ہلاک ہونے والے جرمن فوجی، ’ایگل 4‘ ساخت کی بکتر بند گاڑی کے نيچے پھٹنے والے بم کا نشانہ بنے تھے۔
افغانستان ميں پچھلے چند دنوں کے اندر سات جرمن فوجيوں کی ہلاکت کے بعد 50 جرمن تنظيموں پر مشتمل، تعاون برائے امن نامی گروپ کے افغان امور کے ماہر شٹائن بکر نے کہا کہ جرمن حکومت کو امريکی جنگی کارروائی سے متعلق تنقيدی نقطء نظراختيار کرنا چاہیے، بصورت دیگر جرمنی کے لئے حالات اس سے بھی کہيں زيادہ خراب ہوسکتے ہيں۔ اُنہوں نے کہا کہ پچھلے سال سے جرمن فوج طالبان کے خلاف زيادہ جارحانہ طرزعمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔’’افغان فوج اور پوليس کو کيمپوں ميں تربيت دينے کے بجائے اب جرمن فوجی افغان فوجيوں کے ساتھ گشت پر نکلتے ہيں، جس کے دوران لڑائی ہوتی ہے اور لڑائی ميں ہلاک يا زخمی ہونا قدرتی بات ہے۔‘‘ شٹائن بکر نے مزید کہا کہ افغانستان کے قومی امن جرگے ميں، جو قبائلی نمائندوں پر مشتمل ہے، جنگ بند کرنے پر وسيع آمادگی پائی جاتی ہے۔ يہ انتہائی ضروری ہو گيا ہے کہ مزيد جرمن فوجيوں کی ہلاکت سے پہلے ہی قيام امن کے لئے ايک حل اور جرمن فوج کی واپسی کے لئے بات چيت کا آغاز کيا جائے۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: گوہر نذیر گیلانی