1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

جرمنی کا ایران پر جوہری مذاکرات شروع کرنے پر زور

2 ستمبر 2021

ایران میں جون میں نئے صدر کے انتخاب کے بعد سے ہی جوہری مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ ایران نے حالیہ مہینوں جس انداز سے اپنے جوہری پروگرام کو وسعت دی ہے اس پر عالمی برادری کو شدید فکر لاحق ہے۔

https://p.dw.com/p/3zor9
Iran Atomabkommen Gespräche | Wien, Österrecih
تصویر: Lisa Leutner/AP Photo/picture alliance

جرمن وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ایران پر اس بات کے لیے سخت زور دیتی ہے کہ وہ ان مذاکرات کو دوبارہ شروع کرے جس کا مقصد جوہری معاہدے کو بحال کرنا ہے۔  وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا تھا، ''ہم ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں، تاہم اس کے لیے وقت کا دروازہ ہمیشہ نہیں کھلا رہے گا۔''

فرانس کی وزارت خارجہ نے بھی اسی طرح کا ایک بیان جاری کیا ہے جس میں ایران سے جوہری امور پر مذاکرات شروع کرنے کی بات کہی گئی ہے۔

سن 2015 میں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین، روس اور یورپی یونین نے ایران کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنا اور اس کے بدلے میں اس پر عائد معاشی پابندیوں میں نرمی، کرنا تھا۔  یہ معاہدہ مشترکہ جامع منصوبے کے نام سے بھی معروف ہے، جس کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے باز رکھنا تھا۔

  مشترکہ جامع منصوبے میں ایران میں یورینیم کی افزدگی کو محدود کرنے پر خاصا زور دیا گیا تھا۔ تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو اس معاہدے سے سن2018میں یکطرفہ طور پر نکال لیا تھا اور ایران پردوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اس کے رد عمل میں ایران نے بھی معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کا اعلان کیا۔  

 ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد جب جو بائیڈن نے اقتدار سنبھالا تب سے اس معاہدے کی از سر نو بحالی کی کوششیں ہو رہی ہیں۔  اس حوالے سے اپریل میں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بات چیت کا سلسلہ شروع کیا گیا، جس میں واشنگٹن بھی اپنے یورپی اتحادیوں کے توسط سے بالواسطہ طور پر شامل تھا۔ تاہم ایران میں سخت گیر موقف کے حامی نئے صدر ابراہیم رئیسی کی آمد کے بعد سے ہی یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔

Österreich Wien |  Atom-Konferenz
تصویر: Askin Kiyagan/AA/picture alliance

ایران نے الزامات مسترد کر دیے

ایران کے نئے وزیر خارجہ حسین عامر عبدالہیان نے کہا کہ دوسرے فریقوں کو اس بات سے اچھی طرح سے واقف ہونا چاہیے کہ نئی انتظامیہ کو اپنی ذمہ داریاں اچھی طرح سنبھالنے میں چند ماہ کا وقت لگتا ہے۔ انہوں نے اس تاثر کو بھی مسترد کیا کہ ایران اس حوالے سے مذاکرات سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے بھی اس بات کے اشارے کیے تھے کہ اس بارے میں امریکی صدر جو بائیڈن براہ راست بات چیت کے لیے بھی تیار ہیں، تاہم ایرانی قیادت نے ابھی تک اس سلسلے میں نہ تو کوئی عندیہ دیا ہے اور نہی کوئی فیصلہ سامنے آیا ہے۔

سن 2018 میں جب سے امریکا نے اس معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کیا تب سے ایران نے بھی یورینیم کی افزدگی کی جو حد تھی اس کا پاس نہیں رکھا اور اس نے زیادہ بہتردرجے تک یورینیم افزدہ کر لیا۔ اس پر جرمنی، فرانس اور برطانیہ گہری تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔

لیکن ایران کی حکومت مسلسل اس بات سے انکار کرتی رہی ہے کہ اس کے نیو کلیئرپروگرام کا مقصد جوہری ہتھیار حاصل کرنا ہے۔ ایران کہتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام توانائی کے حصول اور پر امن مقاصد کے لیے ہے۔

 ص ز / ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)

ايرانی جوہری پروگرام

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں