جرمنی کی آئندہ خارجہ پالیسی کیا ہو گی!
26 نومبر 2013موجودہ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے محض ایک قائم مقام کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اُنہیں یہ فرائض محض تب تک انجام دینا ہیں، جب تک کہ کوئی نئی جرمن حکومت تشکیل نہیں پا جاتی۔ جنیوا میں ایران کے ایٹمی پروگرام پر ہونے والے مذاکرات ہوں یا پھر امریکی عوامی نمائندوں کے ساتھ امریکی خفیہ اداروں کی طرف سے کی جانے والی جاسوسی پر برلن میں ہونے والی بات چیت، آج کل گیڈو ویسٹر ویلے خاصے مصروف ہیں۔ دسمبر میں ویسٹر ویلے جب اپنا دفتر خالی کریں گے تو اس احساس کے ساتھ کریں گے کہ اُن کے بعد آنے والے وزیر خارجہ کا تعلق خواہ مخلوط حکومت کی کسی بھی جماعت سے ہوا، خارجہ پالیسی میں بہرحال کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہو گی۔
حقیقت بھی یہ ہے کہ مخلوط حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں جاری مذاکرات کے دوران ’دفاع اور خارجہ پالیسیوں‘ کی ورکنگ کمیٹی نے مقابلتاً بڑی تیزی کے ساتھ اور کسی کھلے تنازعے کے بغیر اپنے نتائج کو تحریری شکل دے دی ہے۔
ویسٹر ویلے نے 2009ء میں وزیر خارجہ بنتے وقت مخلوط حکومت کی تشکیل کے معاہدے میں یہ نکتہ بھی لکھوایا تھا کہ امریکی حکومت کو جرمنی میں نصب ایٹمی ہتھیار ہٹانے کا قائل کیا جائے گا۔ یہ ہتھیار اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ نئی جرمن حکومت بھی اس موضوع کو نہیں چھیڑنا چاہے گی۔
اب تک کے وزیر خارجہ ویسٹر ویلے فوجی مشنوں کے سلسلے میں محتاط طرزِ عمل اختیار کرنے کے حامی رہے تاہم آنے والی جرمن حکومت ’مستقبل کی فوجی کارروائیوں کے لیے تیار‘ رہنا چاہتی ہے۔
نئی جرمن مخلوط حکومت کی تشکیل کے معاہدے کے مسودے میں فرانس اور پولینڈ کو اہم ہمسایہ ممالک قرار دیا گیا ہے جبکہ ’جرمنی کی سلامتی اور آزادی کے سلسلے میں امریکا کو مرکزی اہمیت کے حامل ملک کا درجہ‘ دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ جاسوسی کے اسکینڈل کی وجہ سے مجروح ہونے والا اعتماد پھر سے بحال ہونا چاہیے۔ یورپی یونین اور امریکا کے درمیان فری ٹریڈ زون کو مستقبل کا اہم ترین منصوبہ قرار دیا گیا ہے۔ روس کے ساتھ شراکت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ماسکو حکومت کو روس میں اقلیتوں اور اپوزیشن کے ساتھ کوئی بھی سلوک کرتے ہوئے آئینی، قانونی اور جمہوری معیارات کا خیال رکھنا ہو گا۔
اس مسودے میں چین اور بھارت کو ایسے ’اسٹریٹیجک پارٹنر‘ قرار دیا گیا ہے، جن کے ساتھ اقتصادی تعاون مزید بڑھایا جائے گا۔ افریقہ کو جرمن امداد کے ذریعے اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنے علاقائی مسائل خود حل کر سکے۔ مزید یہ کہ جرمنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کا حقدار ہے لیکن پہلے اس عالمی ادارے کے ڈھانچے میں اصلاحات متعارف کروانا ہوں گی۔
جہاں ماضی میں جرمنی میں مخلوط حکومتوں کی تشکیل کے وقت وزیر خارجہ کے عہدے کو زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا، وہاں آج کل کے حالات میں یہ حیثیت وزیر خزانہ کو حاصل ہو چکی ہے۔ آئندہ جرمن وزیر خارجہ کے طور پر 57 سالہ فرانک والٹر شٹائن مائر کا نام بھی لیا جا رہا ہے، جو 2005ء سے لے کر 2009ء تک بھی اس عہدے پر کام کر چکے ہیں۔