جرمنی کی فلاحی ریاست، اصلاحات ’ناگزیر‘ ہیں
26 دسمبر 2018جرمنی کی گیارہ ہزار چون کمیونیٹز کے حکام ملک میں موجود بہبود کے پیچیدہ نظام کی وجہ سے سخت دباؤ میں ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں موجود ’بیوروکریٹک کلچر‘ سے جان چھڑا کر وہ اس سرمائے کی بچت کر سکیں گے، جو مختلف برادریوں کو فلاحی ریاست کے ثمرات مہیا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ منگل کے روز جرمن قصبوں اور میونسپلٹیز کی تنظیم کے چیف ایگزیکٹیو گیرڈ لانڈزبرگ نے کہا کہ تمام مسائل کا حل زیادہ سرمائے اور زیادہ افرادی قوت کے ذریعے نکالے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ طویل المدتی بنیادوں پر فلاحی ریاست کا یہ نظام جوں کا توں قائم نہیں رہ سکے گا۔ ’’محدود ٹیکس آمدن، آبادی میں معمر افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد اور مختلف علاقوں میں صنعتوں میں کمی اور بے روزگاری میں اضافے جیسے مسائل کا حل فلاحی ریاست کے نظام میں اصلاحات میں مضمر ہے۔‘‘
جن سے اختلاف ہے، ان سے بات کریں: جرمن صدر کا پیغام
جرمن کابینہ نے امیگریشن قوانین کی منظوری دے دی
فنکے میڈیا گروپ کے اخبارات سے بات چیت میں لانڈزبرگ نے مزید کہا کہ ان اصلاحات کا آغاز ویلفیئر گرانٹس پر نظرثانی اور خاندانوں کے لیے ٹیکسوں میں چھوٹ کے ذریعے ہونا چاہیے۔ ’’اس وقت عوامی شعبے میں خدمات کے کوئی 160 مختلف ادارے کام کر رہے ہیں، جن کی وجہ سے بہ طور ریاست جرمنی کو سو ارب یورو سے زائد کا سرمایہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘
انہوں نے اصرار کیا کہ ریاستی سطح پر یہ دیکھا جانا چاہیے کہ کسے مدد کی حقیقی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ’ڈی بیوروکریٹائزیشن‘ کا عمل ہونا چاہیے، یعنی کم سے کم کاغذی کارروائی اور دفتری دوڑ دھوپ۔ لانڈزبرگ کے مطابق مختلف خاندانوں کی بنیادی آمدن کی بنیاد پر سماجی بہبود کے شعبے میں اصلاحات شروع کی جانا چاہییں۔ انہوں نے کہا کہ غریب خاندانوں کے بچوں کی مالی معاونت زیادہ ہونا چاہیے جب کہ مخصوص حالات میں ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کی جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ ستمبر میں سماجی شعبے پر تحقیق کرنے والے محققین نے کہا تھا کہ جرمنی میں بچوں کو میوزک اور کھیلوں کے لیے دیا جانے والا دس یورو فی کس بونس صرف سات میں سے ایک بچے کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔
ع ت، م م (ڈی پی اے، کے این اے)