جرمنی کی ملک بدری کی پالیسی کا تاریک پہلو
17 جون 201728 سالہ رمین محبت جرمنی میں ہیں مگر اس خوف کا شکار ہیں کہ انہیں دوبارہ ان کے ملک واپس بھیجا جا سکتا ہے۔
رامین محبت کی تصویر دکھ کی ایک کہانی سنا رہی ہے۔ دو برس قبل افغان صوبے ہرات میں اس نے ایک شخص کا سر قلم ہوتے دیکھا تھا۔ طالبان اس کے علاقے پر قابض ہیں۔ وہ بغیر داڑھی اور مغربی لباس پہنے اپنے طالبان کے زیرقبضہ اس علاقے میں پہنچا، مگر یہ ایک ایسا جرم تھا، جس کی قیمت اسے تادیر ادا کرنا تھی۔
یہ 28 سالہ نوجوان ایک رپورٹر کے طور پر جنگ کی خبریں دیتا رہا ہے۔ اسے کئی مرتبہ طالبان نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ دریں اثناء وہ اپنے علاقے سے فرار ہو کر جرمنی پہنچ گیا۔ اس دوران اس کے قریبی دوست نے اس کی مدد کی ۔ کئی ماہ تک وہ اس یقین و گمان کے بیچ میں تھا کہ آیا وہ جرمنی پہنچ بھی پائے گا یا نہیں۔
اب وہ جرمنی میں پہنچ چکا ہے اور ہیسے صوبے کے ہوفن ہائم کے علاقے میں مقیم ہے جب کہ وہ مقامی شہری انتظامیہ کے لیے بہ طور فوٹوگرافر کام کر رہا ہے۔ اس دوران وہ جرمن زبان سیکھ چکا ہے، مگر وہ ان افغان باشندوں میں شامل ہے، جن کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی ہے اور اسے ملک بدر کیا جانا ہے۔ اسے بہت پہلے افغانستان بھیج دیا جانا تھا، مگر وہ خوش قسمت تھا کہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور وکلاء نے اس کی مدد کی اور اس کی ملک بدری کو رکوائے رکھا۔
اس نے بہ طور صحافی مرنے والے طالبان جنگجوؤں کی تعداد جاری کی تھی اور اس کے مطابق یہ جرم ایسا ہے کہ اگر وہ افغانستان واپس گیا، تو اسے اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے پورے افغانستان میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں۔
محبت کے مطابق، ’’پچھلے برس جرمنی میں ہر طرف مہاجرین خوش آمدید کا نعرہ سنائی دیتا تھا اور اب ہر کوئی خداحافظ کہہ رہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایسا کیوں ہے۔‘‘
جرمن حکام کا تاہم کہنا ہے کہ افغانستان میں متعدد علاقے محفوظ ہیں، مگر محبت کا کہنا ہے کہ جرمن سیاست دان اس کے ساتھ افغانستان جائیں اور بغیر سیکورٹی کے افغانستان کے کسی بھی علاقے میں چل کر دکھا دیں۔