جرمنی کی چانسلر انگیلا میرکل ہی رہیں گی
24 ستمبر 2017کوئی نیا تجربہ نہیں، جرمنی سیاسی طور پر بھی ان انتخابات کے بعد ویسا ہی رہے گا، جیسا یہ پہلے تھا۔ ملک میں سیاسی، سماجی اور اقتصادی سطح پر سکون ہی رہے گا۔ ہلچل کہیں اور ہے، رجب طیب ایردوآن کے ترکی میں ہے، ٹرمپ کے آنے سے امریکا میں ہے، روس میں ہے اور یورپی یونین سے علیحدگی کی وجہ سے برطانیہ میں ہے۔ دہشت گردی اور عوامیت پسندی پھیل رہی ہے لیکن جرمنی میں پارلیمانی انتخابات نفسیاتی طور پر سکون کا باعث بنے ہیں۔
کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے بارے میں اہم حقائق
میرکل اور شلس کی ووٹرز کو لبھانے کی آخری کوشش
جرمن انتخابات، دونوں بڑی جماعتیں کیا کہہ رہی ہیں؟
اب مزید چار برس تک انگیلا میرکل کی حکومت ہو گی۔ اس پروٹسٹنٹ مسیحی خاتون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جو کام شروع کرتی ہیں، اسے ختم کر کے ہی دم لیتی ہیں۔ یہ جرمنی کی سب سے طویل مدت صدارت والی پہلی خاتون چانسلر ہونے کی وجہ سے پہلے ہی تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ انہیں کس کارنامے کی بنیاد پر تاریخ میں یاد رکھا جائے گا؟
سن دو ہزار پندرہ میں میرکل نے ایک ملین سے زائد مہاجرین کے لیے ملکی سرحدیں کھول کر سب کو حیران کر دیا تھا۔ عوامی جذبات اور غصے کے دوران بھی وہ اپنی پالیسی پر عمل پیرا رہیں۔ اپنے حلیفوں کے تمام تر دباؤ کے باجود انہوں نے مہاجرین کو قبول کرنے کی کوئی بالائی حد مقرر کرنے سے انکار کر دیا۔ اب انہیں اس مسئلے کو منظم طریقے سے حل کرنا ہوگا۔ جن مہاجرین کو سیاسی پناہ دی گئی ہے، ان کو معاشرے میں بہتر طریقے سے ضم کرنا اور جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں، انہیں واپس ان کے آبائی ملکوں میں بھیجنا ہوگا۔ یہ ایک طویل منصوبہ ثابت ہو سکتا ہے۔
اختتام بہتر ہوگا؟
انہیں یورپی یونین کی تعمیر اور مضبوطی پر بھی کام کرنا ہوگا۔ یورپی اتحاد میں دراڑیں پڑتی جا رہی ہیں۔ تاریخی نقطہ نظر سے سوتیلی ماں کا درجہ رکھنے والا ملک برطانیہ عالمی سطح پر تنہا اپنا مقام بنانا چاہتا ہے اور یورپی یونین سے علیحدگی کے حوالے سے حتمی مذاکرات ہونا ابھی باقی ہیں۔ میرکل کے لیے صرف یہی ایک بہت بڑا چیلینج ہوگا۔
یورپی یونین کے جنوب میں واقع ممالک بھی جرمنی کی طرف سے دی جانے والی بچت کرنے کی تجاویز سے خوش نظر نہیں آتے ہیں۔ میرکل کو یورپی یونین کے نظریہ اتحاد کی محافظ خیال کیا جاتا ہے لیکن مقروض یورپی ریاستیں جرمنی کا شدید دباؤ محسوس کرتی ہیں۔ جرمن چانسلر کو یورپی اتحاد کو مزید مضبوط بنانا ہوگا ورنہ قوم پرستی کے نعرے مزید بلند ہونا شروع ہو جائیں گے۔
نرم مزاج اور بے آواز سختی کے ساتھ
انگیلا میرکل سن 2005ء میں چانسلر کے دفتر میں قدم رکھنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ حکومت سازی کے لیے دو مرتبہ انہوں نے اپنی سب سے بڑی حریف جماعت ایس پی ڈی اور ایک مرتبہ لبرلز سے اتحاد کیا۔ ان کی اپنی جماعت میں کرشماتی مرد رہنماؤں کا فقدان پایا جاتا ہے اور سب سے قد آور شخصیت میرکل ہی معلوم ہوتی ہیں۔
اس حوالے سے ان کو اپنے سیاسی مخالفین پر بھی سبقت حاصل ہے۔ سب سے بڑی حریف جماعت ایس پی ڈی کے چار بڑے امیدواروں ( شرؤڈر، شٹائن مائر، شٹائن بروک، شلس) کو وہ شکست دے چکی ہیں اور اتفاق سے ان چاروں کے نام ایس سے شروع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپوزیشن کے پاس عوام کو پیش کرنے کے لیے بھی کچھ زیادہ نہیں ہے۔ میرکل نے سماجی جمہوری پالسیاں بھی اختیار کر رکھی ہیں، جن کی وجہ سے خود ان کی حریف جماعت ایس پی ڈی کے متعدد کارکن بھی میرکل کی جماعت سی ڈی یو میں شامل ہو چکے ہیں۔
ایٹمی توانائی کے خاتمے، ماحول اور مہاجرین دوست پالیسیوں کی وجہ سے میرکل جرمنی کی گرین پارٹی کے نعروں کو بھی کمزور کر چکی ہیں۔ انتخابات سے کچھ دیر قبل میرکل کی جماعت نے ’ہم جنس پرستوں‘ کو شادی کی اجازت بھی دی، پہلے میرکل نے اس کی مخالفت کی تاہم اُن کی جماعت نے یہ فیصلہ کر لیا اور میرکل نے خاموشی اختیار کی۔
ٹرمپ کی مخالفت
اس انتخابی مہم میں بھی میرکل جرمن عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ اس انتخابی مہم میں ان کا ایک ہی فقرہ کافی تھا کہ ’آپ تو مجھے جانتے ہیں‘۔ لیکن سب سے زیادہ نمایاں ان کا طرز سیاست ہے۔ ہر کوئی ان کی سیاست کا معترف ہے۔ نوجوان بھی انہیں پسند کرتے ہیں اور پچیس سال سے کم عمر تو انہی کے دور اقتدار میں بڑھے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب وہ کوئی شعلہ بیان لیڈر ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ ان کا درمیانہ طرز تقریر ہی بہتر ثابت ہو رہا ہے لیکن گفتگو کرتے ہوئے ان کے ہاتھوں کا مخصوص اسٹائل مشہور ضرور ہوا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے میرکل کو ’یورپ کی آخری طاقتور محافظ‘ قرار دیا ہے۔ اس قدر اور تعریف کے کچھ تقاضے بھی ہیں۔ ایک طویل عرصے تک انگیلا میرکل نے چوتھی مدت صدارت کے لیے میدان میں اترنے کا اعلان نہیں کیا تھا۔ میرکل کے قریبی ساتھیوں کے مطابق نو نومبر 2016ء کو ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت ایک دھچکے سے کم نہیں تھی۔ یہ ان کے اپنے ہی الفاط ہیں کہ وہ اپنا کام ادھورا نہیں چھوڑتیں۔ اس کے بعد ہی میرکل نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ عوام نے ایک مرتبہ پھر ان پر اعتبار کیا ہے۔ اب انہیں لازمی تنائج دینا ہوں گے۔