جرمنی کے ساتھ سرحد پر پاسپورٹ کنٹرول ممکن، ڈینش وزیر اعظم
2 جنوری 2016خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے ڈنمارک کے وزیر اعظم لارس لوکے راسموسن کے حوالے سے بتایا ہے کہ کوپن ہیگن حکومت جرمنی سے ملحق ملکی سرحد پر پاسپورٹ چیکنگ کا نظام جلد ہی متعارف کرا سکتی ہے۔ ڈینش عوام کے نام اپنے ایک پیغام میں راسموسن نے کہا، ’’ہم مہاجرین اور تارکین وطن کو دوبارہ اپنی شاہراہوں پر نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہم امن کا قیام اور قانون کا بول بالا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔‘‘
لارس راسموسن نے ڈنمارک میں مہاجرین کے داخلے کو روکنے کے حوالے سے اپنی حکمت عملی واضح کرتے ہوئے کہا، ’’یوں (مہاجرین کی بڑے پیمانے پر آمد سے) ایسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے کہ ہمیں جرمنی کے ساتھ اپنی سرحد پر پاسپورٹ کنٹرول کا نظام متعارف کرانا پڑ جائے۔ اگر یوں ہوتا ہے تو یہ ڈنمارک کے بہترین مفاد میں ہو گا۔‘‘
یہ امر اہم ہے کہ ڈنماک اور سویڈن کی سرحدوں پر لوگوں کی آمد و رفت کی کڑی نگرانی شروع کی جا چکی ہے۔ ان دونوں ممالک کے مابین بس سروس، ٹرین اور فیری کے ذریعے آنے اور جانے والے افراد کی سفری دستاویزات چیک کی جا رہی ہیں۔
سن 1950 کے بعد پہلی مرتبہ آئندہ منگل پانچ جنوری کے دن سے ان دونوں ممالک کو ملانے والے Orsund پل کو عبور کرنے والے افراد کو بھی اپنے پاسپورٹ چیک کرانا پڑیں گے۔
ڈینش وزیر اعظم یورپ کو درپیش مہاجرین کے بحران کے تناظر میں قبل ازیں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اقوام متحدہ کے ریفیوجی کنونشن میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ راسموسن کے مطابق اگر مہاجرین کا بحران مزید شدید ہوتا ہے تو اس سے متاثر ہونے والے تمام ملکوں کو مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی۔
کوپن ہیگن میں راسموسن کی دائیں بازو کی اعتدال پسند سیاسی جماعت مہاجرین مخالف ڈینش پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت میں ہے۔ ڈنمارک کی مہاجرین سے متعلق پالیسیوں کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔
کوپن ہیگن نے حال ہی میں ایک ایسا منصوبہ بھی بنایا تھا، جس میں ملک میں داخل ہونے والے مہاجرین سے ان کی رقوم اور دیگر اہم اشیاء کو ضبط کر لینے کی بات کی گئی تھی۔ اسی مہینے ملکی پارلیمان میں اس مجوزہ منصوبے پر بحث کی جائے گی، جس کے بعد منظوری کے لیے اس پر ووٹنگ عمل میں آئے گی۔
گزشتہ برس جنوری تا نومبر اٹھارہ ہزار مہاجرین چھ ملین کی آبادی والے ملک ڈنمارک پہنچے تھے۔ دوسری طرف سویڈن میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد تقریباﹰ ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ یورپ پہنچنے والے زیادہ تر مہاجرین کی کوشش ہے کہ وہ جرمنی پہنچ جائیں، جہاں حکومت ان بے گھر افراد کے لیے بہت کھلے دل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔