1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جسم وزیراں کا لیکن مرضی ’غیرت مندوں‘ کی

19 جولائی 2020

پاکستان میں’صنفی دہشت گردی‘ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس عمل کی وجہ سے صرف سڑکوں اور بازاروں میں ہی نہیں بلکہ گھروں میں بھی عورتیں محفوظ نہیں رہیں۔ 28 جون کو وزیراں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ’صنفی دہشت گردی‘ نہیں تو اور کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/3fYYr
DW-Urdu Blogerin Saba Hussain
تصویر: Privat

صوبہ سندھ کے ضلع جامشورو کے وڈا چھچھر نامی گاؤں میں وزیراں چھچھر نامی ایک  حاملہ خاتون کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد وحشیانہ انداز میں سنگسار کرتے ہوئے اس کے چہرے کو ناقابل شناخت حد تک مسخ کر دیا گیا تھا اور بعد ازاں اس کی لاش انڈس ہائی وے کے قریب پھینک دی گئی۔

پوسٹ  مارٹم رپورٹ کے مطابق وزیراں آٹھ ہفتے کی حاملہ تھی۔ تصور کیجیے کہ اس حالت میں ایک عورت کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور پھر  پتھر مار مار کر اسے ہلاک کر دینا۔ رونگٹے نہیں کھڑے ہو جاتے آپ کے کیا؟

پاکستان میں جنسی تشدد کے خلاف ایک سخت قانون موجود ہے۔ اس قانون کے تحت ایف آئی آر درج کرانے کے بعد نوے دن سے پہلے پہلے فیصلہ سنانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اس حقیقت پر افسوس ہی  کیا جا سکتا ہے کہ  اس طرح صرف اعلی سطح کے مقدمات میں ہی ممکن ہو پاتا ہے جبکہ ان کیسوں میں بھی  فیصلے ملزم کے حق میں چلے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: غربت اور وٹے سٹے کی شادی، فیصل آباد کی ناصرہ کا المیہ

ایسے حساس کیس اوّل تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ اگر کوئی ہمت کرے بھی تو کیس اتنا لٹکا دیا جاتا ہے کہ دو ہی نتائج نکل پاتے ہیں۔ تاخیر کی وجہ سے یا تو میڈیکل رپورٹ کے ثبوت دم توڑ جاتے ہیں یا دونوں پارٹیاں عدالت کے باہر ہی کسی بھی طرح آپس میں صلح صفائی کر لیتی ہیں۔ اور اس طرح کی صلح صفائیوں میں مظلوم کے علاوہ ہر شخص کی رائے اور تجویز کو اہمیت دی جاتی ہے۔

پولیس حکام کے مطابق وزیراں کے والد نے بیٹی کے قتل کے مقدمے میں شوہر اور دیور کو نامزد کیا تھا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وزیراں کی شادی وٹہ سٹہ کے تحت ہوئی تھی اور یہ بندھن بعد میں ایک تنازعے کا رخ اختیار کر گیا تھا۔ وزیراں میکے لوٹ آئی لیکن معاملہ یہاں ختم نہ ہوا۔ تنازعے کے خاتمے کے لیے جرگہ بٹھایا گیا۔ وزیراں کے شدید خدشات کے باوجود اور اس کی رضامندی کے خلاف اسے واپس اپنے سسرال بھیج دیا گیا۔

دراصل عورت کو معاشی طور پر خودمختاری دینے کے بجائے ہم فرسودہ روایات کا سہارا لیتے ہوئے اس کو حفاظت کے نام پر سات پردوں میں بند کر دیتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عورت کی حیثیت کمزور ہو جاتی ہے۔

پدرسری نظام میں وٹہ سٹہ کی رسم  کی بنیاد یہی قرار دی جاتی ہے کہ خاتون کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ مگر عورت سے پوچھے بغیر اسے تحفظ کے کسی شکنجے میں کسنے کا انجام وہی نکلتا ہے، جو وزیراں کے ساتھ ہونے والی ظلم اور زیادتی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: ماں، بہن اور بیٹی، کیا صرف آپ کی ہی قابل احترام ہے؟

حیدر آباد اور نصیر آباد کے پریس کلب کے باہر کچھ خواتین نے وزیراں کے حق میں نعرے بازی کی تھی۔ یہ وہی 'گناہ گار‘ عورتوں تھیں، جنہوں نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر سکھر میں بے خوف و خطر عورت آزادی مارچ کا اعلان کیا تھا۔

جمعیت علمائے اسلام نے خواتین کی اس مارچ کی پرزور مخالفت کی مگر یہ سینکڑوں عورتیں پھر بھی 8 مارچ کو سکھر کی سڑکوں پر 'برابری سراسی‘ کے نعرے لگاتی ہوئی چوک چوراہوں پر نظر آئیں۔

Marsch der Frauen in Islamabad
تصویر: DW/A. Sattar

اس جسارت کا حساب ایک دن تو چکانا ہی تھا۔ چنانچہ ابھی کچھ دن پہلے ہی  سکھر عورت مارچ کی منتظم  اور  حقوق نسواں کے لیے فعال خاتون کارکن کے خلاف جمعیت علمائے اسلام نے توہین اور گستاخی کے الزامات کے تحت ایف آئی آر کٹوانے کی کوشش کی۔ ان عورتوں کے خلاف یہ 'صنفی دہشت گردی‘ ہی ہے، جو ظالموں کے ہاتھوں وزیراں بننے کو تیار نہیں ہیں۔

وزیراں کے ساتھ جو کچھ  بھی ہوا، چاہے گھروالوں کی طرف سے، سسرال کی طرف سے، معاشرے کی طرف سے یا پھر نام نہاد غیرت مند مردوں کی طرف سے، وہ سب اسی لیے ہوا کیونکہ وزیراں ایک عورت تھی۔ اس کے وجود کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے  جسم کو جس لزرہ خیز طریقے سے اذیت کا نشانہ بنایا گیا، وہ اول آخر صنفی جبر ہی تھا۔

یہ بھی پڑھیے: میں نے زہریلی مردانگی کو اشتعال دلایا‘، ماروی سرمد

دوسروں کے وجود پر اگر کوئی اپنا راج نافذ کرنے کی کوشش کرے گا، تو 'میرا جسم، میری مرضی‘ جیسی آواز ہی اٹھے گی۔ اس قسم کے بہیمانہ اور غیر انسانی سلوک اور  صنفی بنیادوں پر کی جانے والی 'دہشت گردی‘ کے سبب ہی سندھ کے علاقوں میں عورت مارچ جیسی سرگرمیاں زور پکڑ رہی ہیں۔

وزیراں نے جرگے کے فیصلے سے اختلاف کرکے دراصل 'میرا جسم، میری مرضی‘  کا اعلان ہی کیا تھا اور عورت کو اپنی ملکیت سمجھنے والے غیرت مند مردوں کو یہ  فیصلہ کب قبول ہو سکتا ہے۔ اسی لیے ایسے ہی کچھ نام نہاد مردوں نے مل کر وزیراں کو یہ نعرہ  بلند کرنے کی پاداش میں اپنی طرف سے یہ 'سزا‘ دی۔

لیکن شاید ان مردوں کو ابھی تک مکمل طور پر علم نہیں ہو سکا ہے کہ اس طرح کے وحشیانہ اعمال کے سبب  خواتین کے حقوق کی آواز دبائی نہیں جا سکتی بلکہ یہ بہیمانہ اقدامات 'میرا جسم، میری مرضی'  جیسے نعروں کی تاثیر مزید گہری کر رہے ہیں۔ اب وقت بدل گیا ہے اور مزید خاموش نہیں رہا جا سکتا۔ یہ نعرے تب تک بلند کیے جاتے رہیں گے، جب تک عورت کو معاشی، سماجی اور سیاسی برابری نہیں مل جاتی۔

غربت اور وٹے سٹے کی شادی، فیصل آباد کی ناصرہ کا المیہ

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں