جسمانی اور نفسیاتی اذیتوں میں قید غیر محفوظ بچے
16 نومبر 2020ٹی وی پر کشمور واقعے کی خبر چل رہی تھی اور ڈائری پر لکھے ایک مصرعے میں سوچ الجھ گئی کہ ''جو بِن کھلے مرجھا گئے‘‘ گزرتے زمانے نے جہاں بہت سی آسانیاں دی ہیں وہیں آئے دن یہ خبریں دل دہلا کر رکھ دیتی ہیں، ہر واقعے کے بعد وہی گھسے پٹے بیانات اور سوشل میڈیا ٹرینڈ اور ایک ظالمانہ سی امید کہ بس اس سے برا تو کچھ نہیں ہوسکتا پر اس سے زیادہ شدید نوعیت کا واقعہ اعصاب شل کر دینے کو نگاہوں کے سامنے موجود ہوتا ہے۔ بچوں کے ساتھ جنسی درندگی صرف نچلے طبقے تک محدود نہیں ہے اور نہ ہی زیادتی کی فقط یہی ایک قسم ہے۔ ہم مختلف طریقوں سے دانستہ یا نادانستہ ان کو ذہنی اور جسمانی طور پر متاثر کر جاتے ہیں۔
بچوں کے ساتھ تشدد کی پہلی قسم میں مار پیٹ، خاندان میں لڑائی جھگڑے دیکھنا، شکل و صورت یا جسامت کے حوالے سے طعنہ زنی یا مذاق کا نشانہ بننا، ماں باپ یا پرورش کرنے والوں کا مالی یا خانگی مسائل کا غصہ بچوں پر نکالنا شامل ہیں۔ ایسی صورت میں بچہ احساس کمتری اور ندامت کا مسلسل شکار رہتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ سمجھتا ہے کہ گھر یا خاندان میں بگاڑ کی وجہ اس کا وجود ہے، وہ بوجھ ہے سب پر اور وہ نہ ہوتا تو شاید باقی سب خوش رہتے۔ اس قسم کے احساسات کے ساتھ وہ خود اذیتی کو برحق مان لیتا ہے اور ایسے بچے چونکہ تشدد دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں تو یا تو وہ غیر معمولی حد تک حساس واقع ہوتے ہیں یا ردعمل کی نفسیات کے تحت بالغ ہوکر خود سے کمزوروں کےساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھتے ہیں۔
دوسری صورت میں بچہ ایسے ماحول میں پروان چڑھتا ہے، جہاں اس کی بات نہیں سنی جاتی یا حاکمانہ ماحول میں اس کی ذات کی مکمل نفی کردی۔ وہ رشتے جن کا وجود محبت جیسے جذبوں سے معمور ہونا چاہیے ان کی طرف سے سرد مہری، سختی، مسلسل دوسروں سے موازنہ، تواتر کے ساتھ تنقید اس کے اعتماد کو متاثر کرتا ہے، انگریزی میں ہیلی کاپٹر پیرنٹنگ نام کی ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، جس کے مطابق کچھ والدین مسلسل اپنے بچوں کے سر پر ناقد کے طور پر سوار رہتے ہیں اور بچہ ہمہ وقت کیوں، کیا، کب، کیسے ؟؟؟ اور اس جیسے کئی تفتیشی سوالوں اور رویوں کی زد میں رہتا ہے۔ ان کو اپنی پسند کی چیز منتخب کرنے یا بتانے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا اور خود ''اپنی مرضی‘‘ کے کھلونے، لباس، کتابیں ہر سہولت دے کر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہم بری الذمہ ہوگئے۔ اس سے بچے کی قوتِ فیصلہ متاثر ہوتی ہے اور بعض معاملات میں بچہ بڑھتی عمر کے ساتھ گھر کے قید جیسے ماحول اور گھٹن سے فرار کے لیے باہر کے لوگوں میں پناہ ڈھونڈتا ہے اور یہ سب سے بڑا سوالیہ نشان ہوتا ہے کہ اس کی قسمت میں کس قسم کا حلقہ احباب لکھا ہوتا ہے۔ جب بچے باغی ہو کر گھروں کے ماحول سے متنفر ہو جاتے ہیں تب اپنی ذمہ داری یا کوتاہیاں قبول کیے بغیر الزام ''برے زمانے‘‘ پر دھر دیا جاتا ہے۔
تیسری صورت میں بچوں کی نفسیاتی اور جذباتی ذمہ داریوں کی طرح ان کے لباس، خوراک، گھر اور تعلیم کی ذمہ داریوں کو نظر انداز کردینا ہے۔ اگر حالات اجازت نہ دیں تب تو بات سمجھ میں آتی ہے پر وسائل کی دستیابی کے باوجود ان کو بنیادی ضرورتوں کے لیے ترسانا بھی نفسیاتی تشدد کی ایک قسم ہے اور وقت گزرنے کےساتھ اس کا ردعمل بھی کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کرتا۔
چوتھی قسم میں جنسی ہراسانی یا تشدد شامل ہے، بچوں کو ان کی عمر کے برعکس ایسا مواد دکھانا جو ان کی عمر کے لیے موزوں نہیں۔ ان کے سامنے کوئی ایسی غیر اخلاقی حرکت یا گفتگو جو ان کے کچے ذہن میں تجسس کو منفی طور پر بڑھائے۔ بچوں کو ایسے چھونا جسے وہ ناپسند کریں یا خود کو غیر محفوظ سمجھ لیں۔ ہمارے گھریلو نظام میں بچوں کی حیثیت گھر آئے مہمان کے سامنے جوکر کے طور پہ بھی لی جاتی ہے۔ مہمانوں کے سامنے یا ان کی گود میں بچوں کو پکڑا کر ان کے کیوٹ ہونے کی سند وصول کی جاتی ہے۔ آپ کا بچہ گھر آئے ہر فرد کی نظر اور پہنچ میں ہوتا ہے یہ جانے بغیر کہ کونسا انسان کس نیت اور کردار کا ہے۔ جس طرح ہم اپنی قیمتی چیزوں کو ہر انسان کی دسترس سے دور رکھتے ہیں یہ لازم ہے کہ اولاد کے معاملے میں بھی اتنی ہی احتیاط برتی جائے ۔گھرآنے والا ہر انسان ہمیشہ خیر خواہ نہیں ہوتا۔ شکاری بھی ہوسکتا ہے۔
بات چونکہ جنسی تشدد سے شروع ہوئی تو اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے جنسی تشدد کرنے والوں کی شناخت پر بات کی جا رہی ہے۔ ایسا مجرم یا کردار کوئی بھی ہوسکتا ہے، اس کا عمر، رتبے اور مالی حیثیت سے کچھ لینا دینا نہیں۔ بعض بچے گھریلو ملازمین کی درندگی کا شکار بن جاتے ہیں تو بعض گھر یا خاندان کی ''محفوظ ‘‘ چار دیواری میں کسی اپنے کی وجہ سے تڑپتے رہتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ دوستانہ اور محبت نچھاور کرنے والے کردار ماں باپ کا اعتبار جیت کر واردات کے لیے راہیں ہموار کرتے ہیں۔ بعض اوقات جو انسان ماضی میں خود ایسی کسی حرکت سے متاثر ہوا ہو وہ انتقامی جذبے کے طور پر بھی ایسا کرتا ہے۔
بچے ایسے کسی واقعے سے متاثر ہونے کے بعد اپنی پڑھائی اور دیگر مشاغل میں توجہ کھو دیتے ہیں۔ اٹھنے بیٹھنے کے طریقے ایک دم مختلف اور ڈرے سہمے رہنے لگتے ہیں۔ بھوک کا مرجانا ، تنہائی میں رہنا کسی معاملے پہ ردعمل یا خوشی کا فطری اظہار متاثر ہوجاتا ہے۔ ان تمام اچانک تبدیلیوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ غلط ہوا ہے یا ہو رہا ہے۔
اگر کوئی بچہ آپ کو اپنے کسی ایسے راز کا شریک بنائے تو پرسکون رہیے اور تنہائی اور محفوظ جگہ پر مکمل توجہ سے سنیں تاکہ اس کی ہمت بڑھے۔ انہیں اپنی کہانی خود سنانے دیں اور بیچ میں گمراہ کن لقمے نہ دیں۔ آپ کی رائے اس معاملے پر کچھ بھی ہو اسے خود تک رکھیں۔ بچے پر یقین کریں کہ اس قدر تکلیف دہ بات کسی کو بتانا کسی کے لیے آسان ہرگز نہیں ہوتا۔ اس کے راز کو افشا نہ کریں۔ کوشش کریں کہ مجرم اور بچے کے درمیان کسی بھی رابطے کی صورت میں بچے کو اپنی موجودگی کا یقین دلائیں۔ بچے کو کوئی ایسی آس یا امید نہ دلائیں جس کو پورا کرنا آپ کے لیے ممکن نہ ہو۔ بچے کا اپنے خول سے نکل کر آپ پر بھروسہ کرنا ایک بہت ہمت والا کام ہے، کوئی ایسا عمل جس سے اس کا بھروسہ ٹوٹے یا اس کی نفسیاتی گرہیں اور پیچیدہ ہوجانے کا خطرہ ہو اس سے اجتناب کریں۔
کیا تمہارے ساتھ واقعی ایسا ہوا ہے؟ کیا تم سچ بول رہے ہو؟ تم مجھے یہ سب کیوں بتارہے ہو؟ تم نے اُس کو روکا کیوں نہیں؟ تم نے بھی تو کچھ کیا ہو گا؟ جیسے سوالات مت پوچھیں۔ اس سے بچے کی ہمت ٹوٹے گی اور وہ سچ اور مکمل بات بتانے سے جھجھکے گا۔
اپنے ردعمل کو متاثر کُن بنائیے۔ مجھے تمہاری بات پر یقین ہے، تم نے کسی بڑے کو یا مجھے اعتماد میں لے کر بالکل درست کیا، مجھے افسوس ہے کہ تمہیں اس تجربے سے گزرنا پڑا، اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے، ایسے واقعات بہت سے لوگوں کےساتھ ہوتے ہیں پر انہیں چھپانا اچھا نہیں، تم بہت بہادر ہو، میں تمہاری مدد کرنے کی پوری کوشش کروں گا / گی۔ اس طرح بات کرکے آپ کسی بھی متاثرہ بچے کو تحفظ کا احساس اور اعتماد دیں گے۔
اتنی مفصل تحریر کو سمیٹتے ہوئے بس یہ گزارش ہے کہ ہم تمام لوگ کہیں نہ کہیں نفسیاتی یا جسمانی تشدد کا شکار رہے ہیں، تبھی سماج ایک جبر اور گھٹن زدہ ماحول کی منظر کشی کرتا ہے۔ اگر آپ کو اپنے برے وقت میں دھوپ میں جھلستے ہوئے چھاؤں نہ مل سکی پر آپ اب کسی بھی مظلوم یا متاثرہ بچے کے لیے سایہ دار شجر بن سکتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات کی بیخ کنی کرنے کے لیے ہمیں اپنے گھروں، خاندانوں اور سماج میں بات سننے اور سمجھنے کی اہمیت کو فروغ دینا ہے اور اس امر کو سمجھنا ہے کہ بچے کھانے پینے لباس اور تعلیم جیسی ضرورتوں کی طرح جذباتی، نفسیاتی اور جسمانی تحفظ بھی اہم ہے۔