جعلی ڈگریاں، ایگزیکٹ کے ایک رکن پر مقدمہ
22 دسمبر 2016پاکستان میں اس کمپنی کے اہم عہدیداروں کی گرفتاری کے بعد عالمی سطح پر ’جعلی ڈگریوں کی فیکٹریاں‘ چلانے والوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ہوا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ 30 سالہ پاکستانی، عمیر حامد کو انٹرنیٹ جعل سازی، جعل سازی کی سازش اور شناخت چرانے جیسے الزامات کے تحت مین ہٹن کی ایک عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ حامد پر الزام ہے کہ اس نے ہزاروں صارفین سے پیسے لے کر انہیں جعلی ڈگریاں دیں۔
حامد پاکستانی سوفٹ ویئر کمپنی ایگزیکٹ کا ایک اہلکار ہے اور اسے پیر کے روز حراست میں لیا گیا تھا۔ مین ہٹن میں امریکی اٹارنی پریٹ بھرارا نے حامد کی گرفتاری اور مقدمے کی تصدیق کی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق فی الحال حامد کے وکیلِ صفائی کی شناخت نہیں ہو سکی ہے، جب کہ اس حوالے سے وضاحت کے لیے پاکستانی کمپنی ایگزیکٹ کو بھیجی جانے والی ای میلز بھی متعلقہ کمپنی تک نہیں پہنچ سکیں ہیں۔
پاکستان کی جانب سے گزشتہ برس امریکی حکام سے باقاعدہ طور پر ایگزیکٹ کے معاملے کی تفتیش میں مدد کی درخواست کی گئی تھی۔ اس کمپنی پر شبہ ہے کہ اس نے جعلی ڈگریاں بیچ کر لاکھوں ڈالر کمائے۔
روئٹرز کے مطابق پاکستان میں ایگزیکٹ کے دفاتر سیل کر دیے جانے کے بعد سن 2015ء میں حامد نے ایک بار پھر ہائی اسکولوں اور کالجز کی جعلی ڈگریاں فروخت کرنے کا دھندا دوبارہ شروع کر دیا تھا۔
امریکی اٹارنی کے مطابق حامد نے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں سے تعلیمی اسناد کی فراہمی کے بدلے بھاری فیس وصول کیں۔ بھرارا نے بتایا کہ اس بھاری معاوضے کے بدلے ان لڑکے لڑکیوں کی دی جانے والی اسناد کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ کچھ اہمیت نہ رکھتی تھیں۔