شامی ڈاکٹرز ترکی میں مہاجرین کی مدد میں مصروف
22 مارچ 2018صفاالحسین ایک طبی مرکز کے ایک مشاورتی کمرے میں اپنی چار سالہ بیٹی عہد کے ساتھ موجود ہیں۔ عہد شامی شہر رقہ میں ایک حملے میں زخمی ہو گئی تھی۔ اس کی ٹانگ پر ایک گہرا زخم اب بھی موجود ہے۔ یہ بچی جس طبی مرکز میں ہے، وہاں ڈاکٹر اور نرس دونوں کا تعلق شام سے ہے۔ یہ طبی مرکز ترک دارالحکومت انقرہ میں قائم ہے۔
در بہ در بھٹکنے والا ایک مہاجر آخر ڈاکٹر بن گیا
سربیا کا شامی ڈاکٹر، مہاجرین کا مسیحا
لبنان، شامی مہاجرین عدم مساوات کے خوف کے سائے میں
سن 2011 میں شروع ہونے والے شامی تنازعے کے تناظر میں ترکی نے قریب ساڑھے تین ملین شامی شہریوں کو اپنے ہاں پناہ دی ہے۔ اس عرصے میں لاکھوں افراد یا تو شام سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں یا داخلی طور پر بے گھر ہیں۔
ترکی میں متعدد طبی مراکز میں جزوی طور پر شامی مہاجرین کی دیکھ بھال کی جاتی ہے، تاہم مہاجرین کی بڑی تعداد کی وجہ سے ان طبی مراکز پر خاصا انتظامی دباؤ ہے۔
ترکی میں شامی وزارت صحت اور عالمی ادارہ صحت نے سات روزہ تربیت کے بعد ایسے شامی ڈاکٹروں کو ترکی میں مہاجرین کے طبی مراکز میں کام کی اجازت دے دی ہے، جو شام میں ہجرت سے قبل اسی شعبے سے وابستہ تھے۔ اس طرح یہ ڈاکٹر صرف عربی بولنے والے مہاجرین کی نگہداشت کر سکتے ہیں۔
یورپی کمیشن کی انسانی بنیادوں پر امدادی تنظیم ECHO کے طبی امور کے ذمہ دار فیلکس لیگر کے مطابق، ترکی نے مہاجرین سے متعلق انتہائی جدید قانون سازی کی ہے۔ یہ یورپی تنظیم جزوی طور پر شامی ڈاکٹروں اور نرسوں کی تربیت کے لیے سرمایہ فراہم کر رہی ہے۔ لیگر نے بتایا، ’’اب حالت یہ ہے کہ ترکی میں ایک رجسٹرڈ مہاجر کو صحت اور تعلیم کے شعبوں میں وہی حقوق حاصل ہو چکے ہیں، جو ایک ترک شہری کو حاصل ہوتے ہیں۔‘‘
انہوں نے تاہم کہا کہ مہاجرین کو عموماﹰ ترک زبان سے ناآشائی متعدد امور میں مسائل پیدا کرتی ہے اور اسی لیے یہ خیال پیدا ہوا کہ شام میں صحت کے شعبے سے وابستہ مہاجروں ہی کو تربیت فراہم کر کے دیگر مہاجرین کی نگہداشت کی ذمہ داری سونپی جائے۔