1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جلسہ اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک منظور پشتین نہیں آ جاتا‘

13 مئی 2018

کراچی کی سیاسی جماعتوں میں آئندہ پانچ برس کے لیے پنجا آزمائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ دوسری جانب آج پشتوں تحفظ موومنٹ بھی کراچی میں جلسہ منعقد کر رہی ہے، جو کراچی میں آباد پشتونوں کے لیے آئندہ انتخابات کی راہ متعین کر دے گا۔

https://p.dw.com/p/2xcfA
Manzoor Pashteen
تصویر: picture-alliance/ZumaPress

منظور پشتین نے ڈوے ویلے سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا کوئی ملک دشمن ایجنڈہ نہیں ہے بلکہ وہ تو صرف پاکستان میں بسنے والے پشتونوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں، ’’پشتوں بھی اسی ملک کے شہری ہیں۔ چیک پوسٹوں پر تلاشی کے دوران ان کی تذلیل نہ کی جائے، انہیں بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح برابر کا شہری اور وفادار سمجھا جائے۔‘‘

منظور پشتین کا کہنا تھا کہ وہ پرامن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اور کسی بھی صورت تشدد کے عنصر کو جدوجہد میں شامل نہیں ہونے دیا جائے گا، ’’عدم تشدد اور عدم تصادم کی پالیسی پر کاربند ہیں اور رہیں گے‘‘۔

منظور پشتین سے کچھ سوال اور ان کے جواب

کراچی پولیس کی جانب سے منظور پشتین کے ساتھیوں کے خلاف تین مقدمات درج کیے گئے ہیں اور چند افراد کو حراست میں لیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں تاہم انتظامیہ نے منظور پشتین کو شہر کے داخلی راستے سہراب گوٹھ پر جلسہ کرنے کی مشروط اجازت دے دی ہے لیکن منظور پشتین ابھی تک خود کراچی نہیں پہنچ سکے ہیں۔

Pakistan Sadiq Zharak in Quetta
تصویر: shal.afghan

 پہلے منظور پشتین نے کراچی آمد کے لیے فضائی راستہ اختیار کرنے کا ارادہ کیا، جس میں ناکامی کے بعد انہوں نے سڑک کا راستہ اختیار کیا ہے۔ تاہم ان کے ساتھی محسن داور نے سوشل میڈیا کے ذریعے الزام عائد کیا ہے کہ منظور کو راستے میں بار بار روکا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’جلسہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک منظور خطاب نہیں کر لیتا۔‘‘

مقامی میڈیا اس حوالے سے مکمل خاموش ہے تاہم سوشل میڈیا پر منظور پشتین کے حمایتی اور مخالف دونوں ہی غیر معمولی طور پر متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ کئی برسوں سے اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کے شکار بانی ایم کیو ایم الطاف حسین نے بھی سوشل میڈیا پر جاری پیغام میں اپنے کارکنوں کو منظور پشتین کے جلسے میں بھرپور شرکت کی اپیل کر دی ہے۔

گزشتہ روز پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے کراچی میں جلسے کیے۔ عمران خان نے کراچی کی روشنیاں پھر سے بحال کرنے کے لیے گیارہ نکات پیش کیے۔بلاول بھٹو اور عمران خان دونوں رہنماؤں نے ہی ایم کیو ایم کو کراچی کی تباہی کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے خود کو کراچی والوں کا ہمدرد قرار دیا۔

سینئر صحافی کے آر فاروقی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے جلسوں کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ پی ٹی آئی نے بڑی جگہ میں کم لوگوں کی شرکت کو بہتر طور پر مینیج کیا مگر پیپلز پارٹی اس میں ناکام رہی۔ تمام تر حکومتی مشینری کے استعمال کے باوجود بمشکل دس ہزار افراد ہی شہر بھر سے جمع کر کے لائے جاسکے ۔  لیکن اگر دونوں جلسوں میں کراچی والوں کے لیے ایسا کوئی پروگرام پیش نہیں کیا گیا کہ انہیں ایم کیو ایم کا متبادل نظر آئے۔‘‘

منظور پشتین سے کچھ سوال اور ان کے جواب