جمبو جیٹ کی پچاسویں سالگرہ، کامیابی کی نصف صدی
آج سے ٹھیک پچاس برس قبل بوئنگ کمپنی کا بنایا ہوا بوئنگ سات چار سات طرز کا مسافر بردار طیارہ پہلی بار اپنی کسی تجارتی پرواز کے دوران فضا میں بلند ہوا تھا۔ اس طیارے نے فوراﹰ ہی اپنے لیے ’جمبو جیٹ‘ کی عرفیت حاصل کر لی تھی۔
’جمبو جیٹ‘ نام کیوں پڑا
یہ تصویر برٹش ائیرویز کے ایک ایسے بوئنگ 747 طیارے کی ہے، جو عشروں پہلے لندن میں ہیتھرو ایئر پورٹ پر اترنے کے لیے نواحی رہائشی علاقے کے اوپر نیچی پرواز کر رہا تھا۔ اس طیارے کو ہوابازی کی بین الاقوامی منڈی میں تجارتی طور پر متعارف کرائے جانے کے کچھ ہی عرصے بعد اس کی جسامت کی وجہ سے ’جمبو جیٹ‘ کہا جانے لگا تھا۔ چار انجنوں والا یہ طیارہ اپنے دور کا واقعی ایک عظیم الجثہ ہوائی جہاز تھا۔
دیرینہ دوست
نو فروری 1968ء کے روز اتاری گئی اس تصویر میں اس وقت کے بوئنگ کے صدر بل ایلن اور (اب کالعدم) امریکی فضائی کمپنی پین ایم کے سربراہ خوآن تریپے، دائیں، دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ دونوں آپس میں گہرے دوست تھے اور ان کی یہ تصویر بوئنگ سات چار سات کی پہلی طویل پرواز کے بعد اتاری گئی تھی۔
چکا چوند کے ساتھ باوقار سفر
بوئنگ سات چار سات صرف اپنی تکنیکی جدت پسندی کے لیے ہی مشہور نہیں تھا۔ اس کی ایک خاص بات اس کی چکا چوند اور سفر کا پرتعیش تجربہ بھی تھا۔ تب ان طیاروں میں لاؤنج بھی ہوتے تھے، جہاں دوران پرواز مسافروں کو کاک ٹیلز پیش کی جاتی تھیں۔ اس طیارے کی لمبائی 70 میٹر سے زائد اور پروں کی چوڑائی تقریباﹰ 60 میٹر ہوتی تھی۔ مسافروں کی گنجائش، جہاز کے اندر نشستوں کے متنوع نظام کے تحت، 366 سے لے کر 550 تک ہوتی تھی۔
المناک حادثات
جمبو جیٹ کی تاریخ کئی بڑے فضائی حادثات سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ 1974ء میں لفتھانزا کا ایسا ایک طیارہ گر کر تباہ ہو گیا، طیارے میں سوار 59 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ 1977ء میں ایک ہسپانوی جزیرے پر دو جمبو جیٹ آپس میں ٹکرا گئے، اور 583 انسان مارے گئے تھے۔ 1988ء میں لاکربی کی فضا میں دہشت گردی کی وجہ سے تباہ ہونے والا ہوائی جہاز (تصویر) بھی ایک جمبو جیٹ تھا۔ اس طیارے میں سوار تمام 270 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
بہت بڑا دہانہ
جمبو جیٹ کی ایک خاص بات اس کی اوپر والی منزل بھی ہے، اور طیارے کا کاک پٹ بھی اسی دوسری منزل پر ہوتا ہے۔ اس طرز کے مال بردار طیارے اس طرح بنائے گئے تھے کہ کاک پٹ کے عین نیچے طیارے کا منہ کھول کر اس میں بہت بڑے سائز کا سامنا بھی لادا جا سکتا تھا۔ اب بوئنگ کی طرف سے بہت زیادہ ایندھن استعمال کرنے والا یہ جہاز تقریباﹰ صرف مال برداری کے لیے ہی تیار کیا جاتا ہے۔
خلائی شٹل لے جانے والا طیارہ
یہ تصویر 2012ء میں لی گئی تھی اور اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح امریکی خلائی ادارہ ناسا کی ایک شٹل بھی اس طیارے پر لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچائی گئی تھی۔ خلائی شٹل کی مال برداری کے لیے بوئنگ کے دو عدد 747 مال بردار طیاروں میں خاص طور پر کچھ ترامیم کی گئی تھیں۔ اسی لیے یہ جمبو جیٹ ’شٹل کیریئر ایئرکرافٹ‘ کہلاتے تھے۔
فاتح طیارہ
جرمن فضائی کمپنی لفتھانزا کا یہ مسافر بردار بوئنگ سات چار سات اس لیے ’فاتح طیارہ‘ کہلایا کہ 2014ء میں لفتھانزا نے ریو ڈی جنیرو سے برلن واپسی اور فٹ بال کا ورلڈ کپ جیتنے والے جرمن قومی ٹیم کو عالمی کپ کے ساتھ وطن لانے کے لیے یہ جمبو جیٹ استعمال کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے بہت تھوڑے وقت میں اس طیارے پر خاص طور پر یہ الفاظ لکھوائے گئے تھے، ’’لفتھانزا کا فاتح طیارہ۔‘‘
فضاؤں کا ڈائنوسار
اس تصویر میں سامنے نظر آنے والا طیارہ ایئربس کا اے 380 طرز کا طیارہ ہے، جو جمبو جیٹ سے بھی بڑا ہے۔ اس طیارے کے مقابلے میں جمو جیٹ (تصویر میں پیچھے) کوئی ایسا ہوائی جہاز نہیں رہا، جسے مسافروں کی آمد و رفت کے لیے استعمال کرتے ہوئے فضائی کمپنیاں اپنے اخراجات کم رکھ سکیں۔ گزشتہ برس بوئنگ کو صرف 18 نئے جمبو جیٹ تیار کرنے کے آرڈر ملے تھے۔
ایئر فوس ون
بوئنگ نے اپنے 747 طرز کے کل 1548 طیارے بنا کر گاہکوں کے حوالے کیے۔ ان میں وہ چند طیارے بھی شامل ہیں، جو امریکی صدر کے استعمال میں آتے ہیں اور ’ایئر فورس ون‘ کہلاتے ہیں۔ گزشتہ کئی عشروں کے دوران یہی جمبو جیٹ کئی امریکی صدور نے استعمال کیے اور اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی کرتے ہیں۔ یہی طیارے استعمال کرنے والی دنیا کی دیگر انتہائی اہم شخصیات میں جاپان کے شہنشاہ اور برونائی کے سلطان بھی شامل ہیں۔