جنرل دوستم طالبان کے خلاف اپنے ساتھی متحد کرنے میں مصروف
21 نومبر 2015سابق جنگی سردار جنرل عبدالرشید دوستم عسکریت پسندوں کو مار بھگانے میں اپنا نام رکھتے ہیں اور اب وہ شمالی افغانستان میں مضبوط ہوتے عسکریت پسندوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے اپنے ساتھیوں کو منظم کر رہے ہیں۔
عبدالرشید دوستم اس وقت کسی بھی فوجی عہدے پر موجود نہیں، تاہم حال ہی میں انہوں نے اپنے ساتھوں کے ہمراہ طالبان کے خلاف کارروائیوں کا آغاز باآواز بلند کیا ہے۔ افغانستان کے جنوبی علاقوں کو طالبان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، تاہم عسکریت پسندی اب جنوب کی بجائے افغانستان کے شمال کی جانب منتقل ہو گئی ہے اور طالبان شمالی علاقوں میں سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
دوستم کی اس مہم کو گو کہ افغانستان میں خاصی شہرت حاصل ہے، تاہم وہ اور ان کے ساتھی فریاب صوبے میں طالبان کی مسلسل پیش قدمی کو روکنے میں اب تک ناکام رہے ہیں اور یہ عسکریت پسند اب اس صوبے کے دارالحکومت کے قریب پہنچ چکے ہیں جب کہ کئی اضلاع کا قبضہ اب طالبان کے پاس ہے۔
کچھ عرصے قبل طالبان نے قندوز پر بھی کم وقت کے لیے ہی سہی قبضہ کر لیا تھا، جسے بعد میں افغان سیکورٹی فورسز نے نیٹو فوج کی مدد سے عسکریت پسندوں سے چھڑایا۔
طالبان عسکریت پسندوں سے اپنے آبائی علاقے کو بچانے کے لیے سابق نائب صدر فوجی یونیفارم پہنے اپنے ذاتی اثرورسوخ سے وہ تمام قوتیں جمع کر رہے ہیں، جو افغانستان کے شمالی علاقے کو طالبان سے دور رکھنا چاہتی ہیں۔
افغانستان میں گزشتہ چالیس برسوں سے جاری مسلح تنازعے میں ایسے موقع متعدد مرتبہ آئے ہیں، جب دوستم نے اپنی وفاداریاں بدلی ہیں اور اب ایک مرتبہ پھر وہ طالبان کے خلاف لڑائی میں اپنی مضبوطی کے لیے ان قوتوں سے بھی مل رہے ہیں، جنہیں وہ ماضی میں اپنا حریف سمجھتے تھے۔
جنبش ملی نامی اپنے مسلح گروہ کے ساتھ مل کر عسکریت پسندوں کا مقابلہ کرنے والے دوستم جمعیت اسلامی کو بھی اپنے ساتھ ملا چکے ہیں اور اب ماضی میں یہ دو حریف گروہ ایک دوسرے کے ساتھ خفیہ معلومات کے ساتھ ساتھ ہتھیار بھی بانٹ رہے ہیں۔ شمالی افغانستان کے صوبے بلخ میں یہ جماعت انتہائی مضبوط ہے اور اس گروہ کی سربراہی بلخ صوبے کے گورنر عطا محمد نور کرتے ہیں۔
جنبش ملی اور جمیعت اسلامی ماضی کے تمام اختلافات بھلا کر اب بڑے عسکری جتھوں کے ساتھ عسکریت پسندوں کے خلاف برسرپیکار ہیں اور ان کے اختلاط سے اب یہ امید ہو چلی ہے کہ شاید شمالی افغانستان میں عسکریت پسندوں کی پیش قدمی کو خاصی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔