جنرل منوج مکند ناروانے بھارتی فوج کے نئے سربراہ
31 دسمبر 2019منوج ناروانے جنرل بپن راوت کے جانشین ہیں۔ انہوں نے ج منگل 31 دسمبر کی صبح فوجی سربراہ کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھالا۔ اس موقع پر ایک سادہ تقریب میں جنرل بپن راوت نے چیف آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین کی چھڑی اپنے جانشین ناروانے کے حوالے کی۔ سبکدوش ہونے والے فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نے کہا، ''مجھے اعتماد ہے کہ وہ (جنرل ناروانے) فوج کو عظیم بلندیوں تک لے جائیں گے۔‘‘
بھارتی حکومت نے بپن راوت کو ملک کے پہلے 'چیف آف ڈیفنس اسٹاف‘ کے عہدے پر فائز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مسٹر ناروانے 37 برس سے بھارتی فوج میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے ہیں اور اس دوران انہوں نے مختلف ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔گزشتہ ستمبر میں جب انھیں فوج کا نائب سربراہ مقرر کیا گیا تھا تبھی سے یہ قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ وہی فوج کے آئندہ سربراہ ہوں گے۔ اس سے پہلے تک وہ فوج کی شمالی کمانڈ کی قیادت کر رہے تھے جو تقریباﹰ چار ہزار کلو میٹر طویل بھارت - چین سرحد کی حفاظت پر معمور ہے۔ سن 1987ء میں بھارت نے سری لنکا کے لیے جو فوج بھیجی تھی وہ اس میں بھی شامل تھے۔ وہ اپریل 2022ء تک فوج کے سربراہ رہیں گے۔
بھارتی حکومت نے 'چیف آف آرمی اسٹاف‘ کے عہدے کے لیے ابھی جنرل بپن راوت کے نام کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا ہے تاہم مسٹر راوت نے اس کی تصدیق کر دی ہے۔ میڈیا سے بات چیت میں انھوں نے کہا کہ وہ اب نئے عہدے پر فائز ہوکر فوج کے لیے نئی حکمت عملی وضع کریں گے۔ ان کا کہنا تھا، ''فوجی سربراہ کے عہدے کی بہت سی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ ابھی تک میں فوجی سربراہ کی جیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔ اب چونکہ میرا عہدہ الگ ہوگا تو میں بیٹھ کر مستبقل کے لیے حکمت عملی وضع کروں گا۔‘‘
بھارتی فوج میں چیف آف ڈیفنس سٹاف کے عہدے کا اعلان اس برس اگست میں کیا گیا تھا۔ مسٹر راوت اس عہدے پر فائز ہونے والے پہلے فوجی سربراہ ہیں۔ چیف آف ڈیفنس اسٹاف کی حیثیت سے وہ بری فوج، فضائیہ اور بحریہ سے متعلق تمام معاملات میں وزات دفاع کے اہم مشیر ہوں گے۔
چیف آف ڈیفنس کا عہدہ بھی تینوں فوجوں کے سربراہوں کے فور اسٹار عہدے کے برابر ہی ہے، یعنی اسٹار کی حیثيت سے یہ تینوں افواج کے سربراہوں کے برابر کا عہدہ ہے۔ حالانکہ بحریہ، فضائیہ اور بری فوج کے سربراہ انھیں براہ راست رپورٹ نہیں کریں گے اور پہلے کی طرح وزیر دفاع کے ہی تابع ہوں گے تاہم چیف آف ڈیفنس اسٹاف کو ان سے صلاح و مشورے کرنے کا اختیار ہوگا جس کی بنیاد پر وہ اپنی رائے وزیر دفاع کو سونپےگا۔
جنرل بپن راوت کئی بار اپنے متنازعہ بیانات کے سبب سرخیوں میں رہے ہیں اور انہیں ایک ایسے وقت پر اس عہدے پر مقرر کیا جا رہا ہے جب بیشتر اپوزیشن جماعتیں شہریت سے متعلق قانون کے حوالے سے ان کے ایک بیان پر شدید نکتہ چینی کر رہی ہیں۔
انہوں نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ہونے والے مظاہروں سے متعلق سیاسی نوعیت کے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بعض رہنما عوام اور طلبہ کو تشدد کی طرف مائل کر رہے ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ جنرل راوت کا یہ بیان سیاسی نوعیت کا ہے اور انھوں نے اس طرح کی بات حکومت کی اشاروں پر کی ہے۔ ایک سیاسی رہنما نے تو اس کے رد عمل میں صدر جمہوریہ کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ چونکہ بپن راوت نے سیاسی نوعیت کا بیان دے کر فوجی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے اس لیے انہیں ان کے عہدے سے فوری طور پر برطرف کردینا چاہیے۔