جنسی رضا مندی: برلن میں مہاجرین کے لیے خصوصی کلاسیں
31 جولائی 2019ایک کلاس روم میں اسٹوڈنٹس ایک ویڈیو دیکھ رہے ہیں، جس میں نائٹ کلب میں ایک مرد اور خاتون ملتے ہیں۔ دونوں شراب پیتے ہیں، ہنستے مسکراتے ہیں، ڈانس کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو چومتے ہیں۔
اس ویڈیو میں اچانک منظر بدلتا ہے اور مرد اس خاتون کو اپنے ساتھ گھر لے آتا ہے۔ جب خاتون واپس جانا چاہتی ہے تو مرد دروازہ بند کر دیتا ہے اور اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا ہے۔
جب یہ ویڈیو ختم ہوتی ہے تو کلاس روم میں موجود مہاجر اسٹوڈنٹس سے اس ویڈیو کے بارے میں ان کی رائے جانی جاتی ہے۔ اس وقت کلاس میں موجود مہاجرین کا تعلق شام، عراق اور افغانستان سے ہے۔
ایک مہاجر کہتا ہے، ''اس خاتون نے بہت زیادہ شراب پی لی تھی۔ وہ اکٹھے سو رہے تھے۔‘‘ اس کا موقف تھا کہ اس مرد نے خاتون کے زیادہ شراب پی لینے کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔
ایک دوسرے مہاجر نے کہا، ''اسے معلوم تھا کہ وہ کیا کرنا چاہتا تھا۔‘‘ تب اس کلاس روم ورکشاپ کی منتظم کارولا پیٹرسکی نیان نے مداخلت کرتے ہوئے وضاحت کی، ''برلن میں ایسا اکثر ہوتا ہے۔ نوجوان لوگ بہت زیادہ پی لیتے ہیں، وہ منشیات بھی استعمال کرتے ہیں اور کچھ مخصوص حالات میں اس طرح کے جارحانہ جرائم بھی رونما ہوتے ہیں۔‘‘
رضاکارانہ رجسٹریشن
'سلامتی کے لیے اکٹھے‘ نامی اس چار گھنٹے کی کلاس کا اہتمام فی الحال صرف برلن میں ہی کیا جا رہا ہے۔ اس میں لوگ رضاکارانہ طور پر خود کو رجسٹر کراتے ہیں۔ جرمنی کی سماجی انضمام کی وزیر آنیٹے وِڈمان ماؤٹس کا کہنا ہے کہ مہاجرین کے لیے اس طرح کی کلاسوں کا اہتمام بڑے پیمانے پر کیا جانا چاہیے۔
گزشتہ برس جرمن شہرفرائی برگ میں اجتماعی زیادتی کا ایک واقعہ رونما ہوا تھا، جس میں گیارہ میں سے دس ملزمان مہاجرین تھے۔ یورپ میں مہاجرین کے بحران کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد نے جرمنی کا رخ کیا تھا۔
مہاجرت کے اس عمل کے بعد جرمنی میں ریپ کے کئی واقعات رونما ہوئے، جن میں مہاجرین پر بھی الزامات عائد کیے گئے۔ اس وجہ سے جرمنی میں مہاجرین مخالف جذبات میں اضافہ بھی دیکھا گیا اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے ان واقعات کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے بھی استعمال کیا۔
جنسی جرائم کی شرح میں اضافہ
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں غیر ملکیوں کی طرف سے کیے جانے والے جنسی جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ سن دو ہزار سترہ کے مقابلے میں سن دو ہزار اٹھارہ میں ان جرائم کی شرح پندرہ فیصد زیادہ ریکارڈ کی گئی۔
ماہرین کے مطابق اس شرح میں اضافے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ قدرے قدامت پسند ممالک سے مہاجرت کر کے یورپ آنے والے نوجوان مہاجرین کو یہاں کا ماحول کافی زیادہ لبرل معلوم ہوتا ہے اور یہ ان کے لیے ایک 'ثقافتی دھچکے‘ کا باعث بھی بنتا ہے۔
ناروے میں ریپ کے متعدد واقعات کے بعد سن دو ہزار تیرہ تا پندرہ مہاجرین کے لیے اسی طرح کی خصوصی کلاسوں کا اہتمام کیا گیا تھا، جہاں انہیں جنسی عمل کے لیے رضا مندی کے حوالے سے اہم معلومات فراہم کی گئی تھیں۔
انکار کی صورت میں مردانہ ردعمل کیا ہونا چاہیے؟
کارولا پیٹرسکی نیان کے مطابق ان ورکشاپوں کے دوران کئی مشکل موضوعات پر گفتگو کی جاتی ہے۔ اس دوران وہ سوال کرتی ہیں کہ مردوں کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ کوئی خاتون جنسی تعلق پر آمادہ ہے اور اگر وہ آمادہ نہیں، تو مردوں کا ردعمل کس طرح کا ہونا چاہیے۔
یونیورسٹی آف میرسیبرگ سے وابستہ ماہر جنسیات پروفیسر ہائنز ژُرگن فوس کہتے ہیں کہ مختلف معاشروں کی اقدار میں فرق ہوتا ہے اور ایک دوسرے کی روایات اور ثقافت کو سمجھنے کی خاطر اس طرح کی کلاسیں مفید ثابت ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کلاسوں کا اہتمام جرمنی بھر میں کیا جانا چاہیے۔
تاہم مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم امدادی ادارے Pro-Asyl کا موقف کچھ مختلف ہے۔ اس ادارے کے مطابق، ''ہم اقدار اور اخلاقیات روزمرہ کی زندگی میں سیکھتے ہیں نہ کہ کلاسوں میں۔‘‘ اس تنظیم کا اصرار ہے کہ مہاجرین کے بہتر معاشرتی انضمام کے لیے ان کا مقامی لوگوں سے زیادہ رابطہ ہونا چاہیے، انہیں اسکولوں کی سطح پر تعاون فراہم کیا جانا چاہیے اور ملازمتوں کے مواقع بھی میسر آنا چاہییں۔
ع ب / م م / خبر رساں ادارے