جنوبی ایشا میں نصف سے زیادہ لڑکیوں کی شادی 18 سال سےکم عمر میں
12 ستمبر 2014عالمی ادارے کی بہبود اطفال کی ایجنسی یونیسیف کی طرف سے جمعرات کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے خطے میں اس اکیسویں صدی میں بھی ہر سال قریب ایک ملین نو زائیدہ بچے صحت کے ناقص نظام کے سبب دنیا میں آتے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔
جنوبی ایشیا کی یونیسیف کی ریجنل ڈائریکٹر کارین ہُلسہوف نے اس بارے میں اپنے ایک بیان میں کہا، " ماضی کی طرح اب بھی جنوبی ایشیا حاملہ خواتین اور بچوں کو جنم دینے کے عمل کے تناظر میں دنیا کے خطرناک ترین خطوں میں سے ایک ہے اور ماؤں کی اموات کی تعداد کے اعتبار سے جنوبی ایشیا دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے" ۔
کارین ہُلسہوف نے مزید کہا کہ اب بھی جنوبی ایشیائی ممالک میں ایک بڑی تعداد میں کم سن بچیوں کی شادیاں کر دی جاتی ہیں اور پیدائش سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتار دی جانے والی بچیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ اس بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے جنوبی ایشیا میں یونیسیف کی ریجنل ڈائریکٹر کا کہنا تھا، "بچے کی جنس کا انتخاب اب بھی جنوبی ایشیا کے چند علاقوں میں مروجہ ہے۔ اکثر والدین بچے کی پیدائش سے پہلے اُس کی جنس کا پتا لگا لیتے ہیں اور لڑکی ہونے کی صورت میں والدین اسقاط حمل کا فیصلہ کرتے ہیں اور بچی کو دنیا میں آنے ہی نہیں دیا جاتا۔ یہ رواج خاص طور سے ذات پات کے حامل بھارتی سماج میں اب بھی پایا جاتا ہے" ۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، " جنسی امتیاز کی بنا پر بچے کی پیدائش کا فیصلہ کرنے کے رواج کے پیچھے لڑکوں کے حق اور لڑکیوں کے خلاف صنفی تعصب کا ہاتھ ہے۔ لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس میں سماجی، اقتصادی، ثقافتی اور اقتصادی عوامل کار فرما ہیں۔ یہ رواج لڑکیوں کی اسمگلنگ اور جنسی مقاصد کے لیے اُن کے ناجائز استعمال کا سبب بن سکتا ہے" ۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں ہر پانچ میں سے ایک لڑکی کی شادی 15 سال سے کم عمر میں کر دی جاتی ہے اور اس اعتبار سے اس خطے کا شمار دنیا کے ان حصوں میں ہوتا ہے جہاں کم سنی یا بچپن کی شادی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
جنوبی ایشیائی ممالک میں بنگلہ دیش اس ضمن میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس ملک میں ہر تین میں سے دو لڑکیوں کی سن بلوغت میں پہنچنے سے پہلے ہی شادی کر دی جاتی ہے۔ اس طرح ان لڑکیوں کو جنسی زیادتیوں اور گھریلو تشدد کے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کی بچوں سے متعلق رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ جنوبی ایشیا کے بچوں میں غذائیت کی شدید کمی پائی جاتی ہے اور پانچ سال سے کم عمر کے 40 فیصد بچے غیر کامل نمو کا شکار ہیں یا ان کی نشوونما ناقص ہے۔ غیر کامل نمو کے شکار بچوں کو نہ صرف صحت کے دیرینہ مسائل کا سامنا ہوتا ہے بلکہ دنیا بھر میں ایسے کم از کم ایک ملین بچوں کی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ تاہم یہ شرح 1990 ء میں 60 فیصد تھی جو اب کم ہو کر 40 فیصد رہ گئی ہے۔
کنونشن آن دا ہیومن رائٹس آف دا چائلڈ کی پچسویں سالگرہ کے موقع پر سامنے آنے والی اس رپورٹ میں تاہم کیا گیا ہے کہ گزشتہ صدی کی آخری چوتھائی میں براعظم جنوبی ایشیا کے تمام آٹھ ممالک میں بچوں کی زندگی کی مجموعی صورتحال میں بہتری آئی ہے تاہم صنفی امتیاز کے رجحان کے جاری رہنے کے سبب اس خطے میں بچوں اور نوجوانوں سے متعلق ترقی کو نقصان پہنچ رہا ہے جبکہ دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں جنوبی ایشیا میں حکومتوں کی طرف سے صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ جیسے شعبوں میں ہنوز بہت کم سرمیہ خرچ کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں بھارت، بنگلہ دیش، بھوٹان، مالدیپ ، افغانستان، پاکستان، سری لنکا اور نیپال شامل ہیں۔