جنوبی ایشیا اور جرمن پریس
10 جولائی 2011جرمن اخبار ’دی ویلٹ‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اکثر اوقات جرمن مسلمان خواتین بھی اپنے مردوں کے ساتھ ہی پاک افغان سرحدی علاقے میں واقع دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں میں چلی جاتی ہیں۔ مسلمان خواتین میں انتہا پسندی کی طرف مائل ہونے کا رجحان زیادہ تر انٹرنیٹ کے صفحات تک ہی محدود رہتا ہے اور اِس بارے میں تفصیلات منظر عام پر کم ہی آتی ہیں۔ اخبار کے مطابق ایک بار انتہا پسندی کی طرف مائل ہونے والی کم ہی مسلمان خواتین واپس معمول کی زندگی میں لوٹ پاتی ہیں۔ اخبار لکھتا ہے:
’’دہشت گرد تنظیمیں بہت پہلے سے خواتین کو ایک ٹارگٹ گروپ کے طور پر دریافت کر چکی ہیں۔ القاعدہ کے ایک نئے آن لائن میگرین کو الشمیخہ (باوقار) کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں گمنام لکھنے والیاں بتاتی ہیں کہ ایک جنگجو کی بیوی ہو کر کیسا محسوس ہوتا ہے اور جہاد کے دوران اُس کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں۔ وزیرستان سے ملنے والی تازہ ترین رپورٹوں سے اس مفروضے کو تقویت ملتی ہے کہ جہاد کالونیوں میں مقیم جرمن مسلمان خواتین کی ایک بڑی تعداد کا واپس معمول کی زندگی میں لوٹنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ چند ایک خواتین کے جرمن کنبوں کے خیال میں ہو سکتا ہے کہ ان خواتین کو مجبور کر کے وہاں رکھا جا رہا ہو۔ اکثر اوقات غیر ملکی انتہا پسندوں سے اُن کے پاسپورٹ اور نقد رقوم لے لی جاتی ہیں اور ویسے بھی خواتین کو جہاد کالونیوں سے اکیلے نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ وزیرستان کے کسی انٹرنیٹ کیفے سے ان جرمن مسلمان خواتین کی طرف سے اپنے ماں باپ یا بہن بھائیوں کو جو ای میلز روانہ کی جاتی ہیں، وہ بھی وہ خود جا کر نہیں بھیجتیں۔‘‘
فرینکفرٹ سے شائع ہونے والے اخبار ’فرانکفرٹر رنڈشاؤ‘ نے پاکستان میں پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ جمع کرنے کے شعبے کو موضوع بنایا ہے۔ اخبار نے کراچی کے حاجی جلال الدین کا حوالہ دیا ہے، جو اپنے ملازموں کے ذریعے کراچی کے کوڑے کے ایک ڈھیر سے پلاسٹک کے اجزاء، کمپیوٹر کے مختلف حصے اور پرانے بیٹری سیلز وغیرہ الگ کرواتا ہے۔ پھر دوسرے پٹھان کاروباری لوگ الگ کیا گیا یہ کوڑا کرکٹ خرید لیتے ہیں اور آخر میں اسے چین روانہ کر دیا جاتا ہے۔ حاجی جلال الدین اپنے ملازموں کو محض اتنی اجرت دیتا ہے کہ وہ بڑی مشکل سے اپنا گزارہ کر سکتے ہیں۔ کراچی میں گزشتہ نصف صدی سے سرگرم عمل 81 سالہ جرمن ڈاکٹر اور نَن رُوتھ فاؤ کوڑے کرکٹ کی تجارت کو اِس شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے مستقبل کے ایک سنہری موقع کے طور پر دیکھتی ہیں۔ اخبار لکھتا ہے:
’’رُوتھ فاؤ کا آئیڈیا یہ ہے کہ آئندہ چین کے ساتھ تجارت سے حاصل ہونے والی آمدنی جلال الدین کی بجائے کوڑا جمع کرنے والے مزدوروں کو ملے۔ اُن کے ذہن میں عرصے سے یہ بات ہے کہ وہ جرمن شہر آخن میں کیتھولک امدادی تنظیم مزیریور کو ایک خط لکھیں گی، جس میں وہ کوڑے کرکٹ کو الگ الگ کرنے اور اُسے ری سائیکل کرنے کے سلسلے میں اس تنظیم کی مدد طلب کریں گی۔ (بھارت میں سرگرم رہنے والی مدر ٹریسا کے برعکس) رُوتھ فاؤ اپنے کام اور ویٹی کن کی لگی بندھی سوچ کے درمیان فرق روا رکھتی ہیں۔ گڈاپ میں اپنے مرکز صحت میں ڈاکٹر رُوتھ فاؤ نے بتایا:’’جہاں تک مذہبی معاملات کا تعلق ہے، یقیناً پاپائے روم مجھ سے بہتر جانتے ہوں گے لیکن جہاں تک میرے اپنے کام کا تعلق ہے، وہ اِس میں مداخلت نہیں کر سکتے۔‘‘ لیکن رُوتھ فاؤ کی یہ آزادانہ سوچ اگر ایک طرف ویٹی کن کی قدامت پسند سوچ کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی تو کراچی میں بسنے والے افغانوں کی طرف سے بھی اِس کو ثقافتی اور مذہبی طور پر پسند نہیں کیا جا رہا۔
پاکستان کے بعد ذکر بھارت کا۔ سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ سے شائع ہونے والے اخبار ’نوئے زوریشر‘ نے تلنگانہ کے علاقے کو آندھرا پردیش سے الگ کرنے کے حق میں جاری تحریک کو موضوع بنایا ہے۔ گزشتہ منگل کو جنوبی بھارتی شہر حیدرآباد میں اڑتالیس گھنٹے کی ایک عام ہڑتال نے کاروبارِ زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ اس دوران تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکز بند رہے اور سڑکوں پر ٹریفک بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس ہڑتال کی اپیل دیگر تنظیموں کے ساتھ ساتھ تلنگانہ راشٹر سمیتی کی جانب سے بھی کی گئی تھی، جس کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے اخبار لکھتا ہے:
’’یہ کمیٹی دراصل ایک سیاسی جماعت ہے، جس کا مطالبہ ہے کہ تلنگانہ کے شمالی علاقے کو معاشی امتیاز کا سامنا ہے، اِس لیے اِسے ریاست آندھرا پردیش سے الگ کیا جائے۔ یہ مطالبہ نیا نہیں ہے۔ 1956ء میں آندھرا پردیش کے الگ ریاست کے طور پر قیام کے کچھ ہی عرصے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ 1969ء میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں تقریباً 400 افراد مارے گئے تھے۔ احتجاج کی تازہ لہر 2009ء سے دیکھنے میں آ رہی ہے۔ تب اس کمیٹی کے بانی نے بھوک ہڑتال کر کے مرکزی نئی دہلی حکومت سے اپنا یہ مطالبہ منوا لیا تھا کہ تلنگانہ کو الگ ریاست بنانے کی تجویز پر غور کیا جائے گا۔ گزشتہ برس اس تجویز کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان کئی بار تصادم دیکھنے میں آیا۔ اب یہ تنازعہ مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ حال ہی میں تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے 81 اراکین نے آندھرا پردیش کی ریاستی پارلیمان سے استعفیٰ دے دیا جبکہ چند ایک منتخب عوامی نمائندے نئی دہلی کی مرکزی پارلیمان میں اپنی نشست سے دستبردار ہو گئے۔‘‘
برلن کے اخبار ’ٹاگیز اشپیگل‘ نے جنوبی بھارت کے ایک مندر میں دریافت ہونے والے ایک بڑے خزانے کو موضوع بنایا ہے۔ حکام کے اندازوں کے مطابق اس مندر کے تہہ خانے میں سے دریافت ہونے والے سونے اور ہیرے جواہرات کی مالیت اربوں یورو بنتی ہے۔اخبار لکھتا ہے:
’’بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس تہہ خانے میں بوریوں کے حساب سے سونا اور ہیرے جواہرات رکھے ہوئے ہیں۔ صرف سونے کے سکے ہی 500 کلوگرام سے زیادہ ہیں۔ سونے اور چاندی کی ہزاروں قیمتی زنجیروں کے ساتھ ساتھ سونے کی ایسی بے شمار مورتیاں ملی ہیں، جن پر ہیرے جواہرات جڑے ہوئے ہیں۔ سونے کی ایک زنجیر کی لمبائی چھ میٹر بتائی گئی ہے۔ اگر یہ خبریں درست ہیں تو جنوبی بھارت کا یہ شری پدمانابھاسوامی مندر ملک کا خوشحال ترین مندر بن جائے گا۔ ‘‘
یہ تو تھی اخبار ’ٹاگیز اشپیگل‘ کی رائے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ خزانہ کب اور کس نے یہاں محفوظ کیا تھا۔ اخبار ’دی ویلٹ‘ کے مطابق ایک خیال یہ بھی ہے کہ ٹراونکور کے مہاراجہ نے برطانوی نوآبادی حکمرانوں سے بچانے کے لیے اپنی ساری دولت یہاں چھپا دی ہو گی، جو اپنی نوآبادیوں کا سونا اپنی تحویل میں لے لیا کرتے تھے۔
ترتیب: آنا لیہمان، ترجمہ: امجد علی
ادارت: عابد حسین