1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا اور جرمن پریس

14 دسمبر 2009

جنوبی ايشيا کے اہم حالات و واقعات کے بارے ميں جرمن رسائل و جرائد میں چھپنے والے تبصرے اور ادارتی جائزوں کا احاطہ

https://p.dw.com/p/L1eW
تصویر: AP

طالبان اور اُن کی حامی قبائلی ملیشیاؤں کے خلاف پاکستانی فوج کے حالیہ آپریشن کے آغاز سے اب تک انتہا پسندوں کی جوابی کارروائیوں میں تقریباً چار سو پچاس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تازہ ترین حملہ ملتان میں ہوا۔ سوشلسٹ اخبار ’’نَوئیس ڈوئچ لانڈ‘‘ لکھتا ہے:

’’اِس ملک میں اب کہیں بھی سلامتی کا نام و نشان نہیں۔ پسِ پردہ بہت سے ہاتھ کارفرما ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ بے رحمانہ تشدد کا ایک ایسا ملک گیر جال وجود میں آ چکا ہے، جس کا گزشتہ کئی برسوں سے خفیہ ادارے بھی ایک حصہ ہیں، اِس غلط فہمی میں کہ وہ اپنے کٹر دشمن بھارت کے خلاف ایک ہراوّل دَستہ تشکیل دے رہے ہیں۔ دریں اثناء یہ نَیٹ ورک خود پاکستان کی بقا کے لئے ایک سنگین خطرے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پاکستانی فوجیں اپنے آپریشن میں عارضی کامیابیاں ہی کیوں نہ حاصل کر رہی ہوں، سیکیورٹی کا ڈھانچہ انتہا پسندوں کو ایک کے بعد دوسرا دہشت پسندانہ حملہ کرنے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔‘‘

اخبار ’’نَوئیس ڈوئچ لانڈ‘‘ کے مطابق صدر زرداری ایسے اقدامات نہیں کر رہے، جن کی مدد سے انتہا پسندوں کو بے دَست و پا اور تنہا کیا جا سکتا۔ یا تو صدر زرداری جانتے ہی نہیں کہ وہ یہ کام کیسے کریں اور یا پھر اُن کے ہاں پختہ عزم کی کمی ہے۔ اخبار لکھتا ہے:

Hakimullah Mehsud Taliban Tehrik e Taliban
تحریک طالبان پاکستان کے رہنما حکیم اللہ محسودتصویر: picture-alliance/ dpa

’’کیونکہ ایسا کرنے کا مطلب ہو گا، اُن سماجی اقتصادی اور جزوی طور پر ابھی تک جاگیردارانہ حالات کو بدلنا اور طاقت کے اُن ڈھانچوں کو ختم کرنا، جن میں فوج اور مُلاّ مِل کر سازشوں کے جال بُنتے ہیں۔تاہم ایسا کرنے کی نہ تو اُن میں طاقت ہے اور نہ ہی اُن کا یہ ارادہ ہے۔ اُن کا سب سے بڑا نصب العین یہی لگتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے عہدے پر جمے رہیں۔ تاہم ا گر صدر کا طرزِ عمل یہی رہا تو ملتان کی طرح کے دہشت پسندانہ حملے ایک طویل عرصے تک پاکستان میں ایک معمول بنے رہیں گے۔‘‘

امریکی حکومت پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ تیز تر کرنا چاہتی ہے ا ور اِس مقصد کے لئے مزید ڈرون حملے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اِس حوالے سے اخبار ’’فرانک فُرٹر رُنڈ شاؤ‘‘ لکھتا ہے:

’’اگرچہ واشنگٹن میں بیٹھے انسدادِ دہشت گردی کے ماہرین درپردہ اِس پروگرام کو کامیاب قرار دیتے ہیں کیونکہ اِس کی مدد سے سرکردہ انتہا پسندوں کو ختم کرنے اور اُن کی کارروائیوں میں خلل ڈالنے میں مدد مل رہی ہے۔ تاہم سرکاری طور پر اوباما انتظامیہ بھی اپنی پیش رَو حکومت ہی کی طرح اِس بارے میں مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اِس خاموشی کا تعلق غیر واضح قانونی اور سیاسی صورتحال سے ہے۔ اگرچہ عام طور پر قیاس یہی ہے کہ یہ ڈرون حملے پاکستانی خفیہ اداروں کے ساتھ اشتراکِ عمل اور حکومتِ پاکستان کی خاموش رضامندی سے عمل میں آتے ہیں لیکن شاید پاکستانی رائے عامہ کی شدید تنقید سے بچنے کے لئے اِس بات کا کھلے عام اظہار کبھی نہیں کیا گیا۔‘‘

اخبار ’’زُوڈ ڈوئچے‘‘ کے مطابق پاکستانی حکومت کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں امریکی دَستوں کی نفری میں مزید تیس ہزار کے اضافے کے نتیجے میں طالبان کی زیادہ بڑی تعداد سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہو سکتی ہے۔ اخبار لکھتا ہے:

’’پاکستان میں سلامتی کی خراب صورتِ حال کے پس منظر میں اوباما کے مزید دَستے افغانستان بھیجنے کے منصوبوں پر اسلام آباد حکومت محتاط رد عمل ظاہر کر رہی ہے کیونکہ یہ منصوبے پاکستان کے لئے مزید مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ طالبان کے خلاف زیادہ بھاری نفری کے ساتھ کی جانے والی کارروائیوں کے نتیجے میں انتہا پسند فرار ہو کر پاکستانی سرزمین پر پناہ لینے کی کوشش کریں گے۔ گویا جنگ افغانستان سے پاکستان کو منتقل ہو جائے گی۔‘‘

حال ہی میں روس کے سہ روزہ دَورے پر گئے ہوئے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اور صدر دمتری میدویدیف نے ایک جوہری سمجھوتے پر دستخط کئے، جس کے تحت ماسکو حکومت نے بھارت کو یورینیم کی مسلسل فراہمی کی ضمانت دی ہے۔ بدلے میں بھارت روس سے کم از کم چار ایٹمی بجلی گھر خریدے گا۔ اخبار ’’ہانڈلز بلاٹ‘‘ لکھتا ہے:

Präsidentenwahl in Pakistan - Zardari pixel
پاکستانی صدر آصف علی زرداریتصویر: picture-alliance/ dpa

’’اگر عشروں کی تنہائی کے بعد بھارت کو رواں سال سے یورینیم اور پُر امن جوہری ٹیکنالوجی کی فراہمی کی اجازت دی جا رہی ہے تو اِس کے لئے اُسے امریکہ کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ اوباما کے پیش رو جارج ڈبلیو بُش نے سن دو ہزار پانچ میں من موہن سنگھ کے ساتھ اِسی طرح کا ایک معاہدہ کیا تھا تاہم بجلی گھر بنانے والے بڑے امریکی ادارے جیسے کہ جنرل الیکٹرک اور وَیسٹنگ ہاؤس اب تک اِس معاہدے کا فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی وہ اضافی معاہدہ طے نہیں ہوا، جس میں امریکی یورینیم کی فراہمی اور افزودگی سے متعلق ضوابط کا تعین کیا جائے گا۔ ایسے میں امریکی اداروں کے لئے یہ بات اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہو گی کہ اب روس اِس میدان میں کُود پڑا ہے۔ بلاشبہ بھارت کو پُر امن جوہری ٹیکنالوجی کی دوڑ میں روس امریکہ پر بازی لے گیا ہے۔‘‘

اخبار ’’بیرلینر سائی ٹُنگ‘‘ کے مطابق سترہ سال پہلے ایودھیا میں مسلمانوں کے خلاف عوامی اشتعال کی جو لہر پیدا ہوئی، اُس کی ذمہ داری میں کانگریس پارٹی بھی شریک تھی لیکن اب یہ جماعت دوسروں کو قصوروار ٹھہرا کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ اِس طرح کانگریس پارٹی تاریخ کو نئے سرے سے رقم کرنے کی کوشش میں ہے۔

’’گزشتہ سال سے راہول گاندھی نےاپنی جماعت کی انتخابی مہم کی قیادت سنبھالی ہے اور تب سے وہ ایودھیا کی ذمہ داری سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کوشش کافی حد تک کامیاب بھی رہی ہے کیونکہ مئی میں اُتر پردیش میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں مسلمانوں نے ایک مرتبہ پھر بڑی تعداد میں کانگریس پارٹی کو ووٹ ڈالے۔ اِس کامیابی سے حوصلہ پا کر راہول گاندھی اب پھر اِس خطے میں گئے ہیں۔ وہ اُن واقعات کی تاریخ بدلنا چاہتے ہیں، جو چھ دسمبر سن اُنیس سو بانوے کو رونما ہوئے۔ وہ ہمیشہ کے لئے یہ بات تاریخ میں رقم کر دینا چاہتے ہیں کہ تب جو کچھ بھی ہوا، اُس میں کانگریس پارٹی بے قصور تھی۔‘‘

امجد علی

ادارت: ندیم گل