جنوبی ایشیا میں بحری جہازوں کے قبرستان
بھارت اور بنگلہ دیش میں بحری جہازوں کو توڑنے والے مزدوروں کوسخت حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران نہ تو حفاظتی اقدامات کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی تحفظ ماحول کا۔ یہ لوگ جان جونکھوں میں ڈال کر یہ کام کرتے ہیں۔
بے یارو مددگار
یہ تصویر بنگلہ دیشی شہر چٹاگونگ کے شپ بریکنگ یارڈ کی ہے۔ اس صنعت میں کام کرنے والے ایک چوتھائی یا پچیس فیصد مزدور اٹھارہ سال سے کم عمر کے نوجوان ہیں۔ یہاں پر نہ تو مزدوروں کو کوئی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اور نہ ہی ماحولیات کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت بھی اس معاملے پر کوئی توجہ نہیں دیتی۔
استحصال
نوجوانوں اور کم عمر بچوں سے اکثر زیادہ کام لیا جاتا ہے اور انہیں دوسروں کے مقابلے میں تنخواہ بھی کم دی جاتی ہے۔
غیر محفوظ
ناکارہ جہازوں کو توڑنے کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزدروں کو ہیلمٹ، خاص قسم کے جوتے یا حفاظتی چشمے فراہم کیے جانے چاہییں تاہم نہ تو بھارت اور نہ ہی بنگلہ دیش میں ایسا کیا جاتا ہے۔ شپ بریکنگ یارڈز میں مزدوروں کا شدید زخمی ہونا معمول کی بات ہے۔
جھلسے ہوئے مزدور
’شیخو‘ چٹاگانگ کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ وہ اس وقت شدید جھلس گیا، جب ايک بحری جہاز کو توڑتے وقت آگ لگ گئی تھی۔
معذوری
ادریس کبھی شپ بریکنگ صنعت کا ملازم ہوا کرتا تھا۔ ایک حادثے میں اس کی ٹانگ ضائع ہو گئی۔
زہریلی آلودگی
شپ بریکنگ سے صرف یہاں کے ملازمین ہی متاثر نہیں ہیں بلکہ ارد گرد کے علاقوں کے مکین بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ ناکارہ جہازوں سے بہنے والے تیل نے زیر زمین پانی کے ذخائر کو زہریلا بنا دیا ہے۔ ویلڈنگ کے دوران اڑنے والے دھوئیں نے بھی ماحول کو انتہائی آلودہ بنا دیا ہے۔
کوئی امکان نہیں
جن جن علاقوں میں شپ بریکنگ یارڈز یا بحری جہازوں کے قبرستان موجود ہیں، وہاں کا ماحولیاتی نظام درم برھم ہو چکا ہے۔ اب وہاں نہ کھیتی باڑی کی جا سکتی ہے اور نہ ماہی گیری ہو سکتی ہے۔
آلنگ
بھارتی ریاست گجرات میں آلنگ کا شپ بریکنگ یارڈ بحری جہازوں کا دنیا کا سب سے بڑا قبرستان کہلاتا ہے۔ یہاں پر کام کرنے والے تقریباً تمام ملازمین کا تعلق شمالی بھارت سے ہے۔ یہ لوگ انتہائی عام سی کٹیاؤں میں رہتے ہیں۔ 2009ء سے اب تک آلنگ میں دو ہزار چھ سو سے زائد بحری جہازوں کو توڑا جا چکا ہے۔
’بچث‘
آلنگ میں مزدروں کے یہ کٹائیں یا مکان بہت چھوٹے ہیں۔ ان میں نہ تو پانی کا انتظام ہے اور نہ بجلی کی سہولت
وقفہ
شدید بارش کی صورت میں ملازمین کو کام چھوڑنا پڑتا ہے۔ بغیر کسی حفاظتی انتظام کے یہ لوگ کسی بھی متروک جہاز کے عرشے پر اکھٹے ہو جاتے ہیں۔
سیاحت بھی
بحری جہازوں کے ان قبرستانوں میں لوگ صرف ملازمت کی غرض سے ہی نہیں آتے بلکہ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد بھی جہازوں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھنے میں دلچسپی لیتی ہے۔ یہ لوگ ہر مرحلے کی تصاویر بناتے ہیں۔