جنوبی ایشیا میں کم عمری کی شادیاں ایک ’وبا‘
جنوبی ایشیا میں کم عمری میں بچیوں کی شادیاں کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے اور بنگلہ دیش اس فہرست میں اول نمبر پر ہے۔
شادی کی کم از کم عمر میں کمی کی تجویز
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں نابالغ لڑکیوں کی شادیوں کو ایک ’وبا‘ قرار دیتے ہوئے بنگلہ دیشی حکومت پر اس مسئلے پر فوری قابو پانے کے لیے زور دیا ہے۔ اس دوران اس تنظیم نے ڈھاکہ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اُس تجویز کو بھی مسترد کر دے، جس میں لڑکیوں کی شادی کی عمر کو اٹھارہ سے کم کر کے سولہ کرنے کا کہا گیا تھا۔
اپنی پندرہویں سالگرہ سے پہلے
بنگلہ دیش میں تقریباً تیس فیصد لڑکیوں کو ان کی پندرہویں سالگرہ سے پہلے ہی بیاہ دیا جاتا ہے۔’’ اس سے پہلے کے سیلاب گھر کو بہا لے جائے شادی کر دی جائے‘‘۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی یہ رپورٹ ان میں سے چند لڑکیوں سے بات چیت کر کے مرتب کی ہے، جن کی کم عمری میں شادی کر دی گئی تھی۔ بنگلہ دیش میں قانونی طور پر ایسی شادیاں غیر قانونی ہیں تاہم رشوت دے کر پیدائش کی دستاویز کو باآسانی تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
غربت مجبوری کا نام
بنگلہ دیش میں تواتر سے آنے والی قدرتی آفات کی وجہ سے بہت سے شہری غربت کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ غربت بھی چائلڈ میرج کی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ بہت سے خاندانوں میں لڑکیوں کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے یقین دلایا تھا کہ 2021ء تک پندرہ سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادیوں پر قابو پا لیا جائے گا جبکہ 2041 ء تک اس ملک سے چائلڈ میرج ختم کر دی جائے گی۔
جنسی اور جسمانی تشدد
کم عمر بچیوں کو شادی کے بعد اُن کے شوہروں کی جانب سے جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے بھی واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں بچیوں کو دس اور گیارہ سال کی عمر میں ہی بیاہ دیا گیا ہے۔ طبی حوالے سے اِن بچیوں کا جسم ابھی اتنا طاقت ور نہیں ہوتا کہ وہ جنسی روابط قائم کر سکیں یا کسی بچے کو جنم دے سکیں۔ اس طرح زیادہ تر لڑکیاں صحت کے سنگین مسائل کا شکار بھی ہو جاتی ہیں۔
یہ جنوبی ایشیا کا مسئلہ ہے
یہ مسئلہ صرف بنگلہ دیش تک ہی محدود نہیں ہے۔ کم عمری میں زبردستی شادیاں کرانے کا رجحان پورے جنوبی ایشیا میں پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگلی دہائی کے دوران دنیا بھر میں تقریباً 140 ملین لڑکیوں کی اٹھارہ سال سے کم میں شادی کر دی جائے گی اور ان میں سے 40 فیصد شادیاں جنوبی ایشیا میں ہوں گی۔
روایات بمقابلہ قانون
پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا اور نیپال میں کم عمری میں شادی کرنا خلاف قانون ہے۔ لیکن زمینی حقائق ایک مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2000ء اور 2010ء کے دوران 20 سے 24 سال کی درمیانی عمر کی تقریباً پچیس ملیین لڑکیاں ایسی تھیں، جن کی شادی اس وقت کر دی گئی تھی، جب وہ ابھی اٹھارہ سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں۔
رویے میں تبدیلی
جنوبی ایشیا کے لیے یونیسف کے نائب ڈائریکٹر اسٹیفن ایڈکسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سلسلے میں لازمی طور پر مختلف سطح پر بات چیت کا آغاز کیا جانا چاہیے۔ معاشرے کی سوچ تبدیل کرنے کے لیے کم عمری میں شادی، زچگی کے دوران اموات اور صنفی تعصب کے نقصانات کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا جانا چاہیے۔