جنوبی ایشیا کے حالات پر جرمن پریس کے تبصرے
14 جون 2010بھارتی شہر بھوپال میں 25 سال قبل ہونے والے زہریلی گیس کے حادثے کی ذمہ دار امریکی کمپنی یوینن کاربائیڈ کی ایک ذیلی فرم کے سات سابقہ عہدیداروں کو بھوپال ہی کی ایک عدالت نے گزشتہ دنوں قصوروار قرار دیتے ہوئے انہیں دو دو سال قید کی سزا سنائی۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سوئٹزرلینڈ کا اخبار نوئے زیورشر سائٹنگ لکھتا ہے: اب تک 70 سال سے زیادہ عمر کو پہنچ جانے والے ان مینیجروں کو قید کی سزائیں سنائے جانے کے بعد ضمانت پر رہا بھی کر دیا گیا۔ امید تو یہ کی جا رہی تھی کہ یہ افراد اس فیصلے کو رد کر دیں گے اور اس طرح قانونی کارروائی کا سلسلہ ابھی جاری رہے گا۔ بھوپال کے اس حادثے کا شکار ہو نے والوں کے حقوق کے لئے سرگرم تنظیموں نے اتنی ہلکی سزا پر گہری مایوسی کا اظہار کیا۔ جس روز عدالت نے یہ فیصلہ سنایا، اسی دن سہ پہر کو ہزاروں متاثرین اور انسانی حقوق کے لئے سرگرم کارکنوں نے بھوپال کی سڑکوں پر نکل کر عدالتی فیصلے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ مظاہرین کے ایک لیڈر نے بھوپال کی عدالت کے اس فیصلے کو ایک قانونی بحران کی نشاندہی قرار دیا تھا۔
جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما گزشتہ ہفتے بھارت کے دورے پر تھے۔ فٹ بال ورلڈ کپ کے انعقاد سے پہلے زوما کا یہ آخری غیر ملکی دورہ تھا۔ سوشلسٹ نظریات کا حامل اخبار نوئس ڈوئچ لینڈ تحریر کرتا ہے: توقعات کے مطابق میزبان اور مہمان فٹ بال ڈپلومیسی یا سفارتکاری کو بروئے کار لانے سے پرہیز نہیں کر سکے۔ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما کو ایک کامیاب اور پر وقار فب بال ورلڈ کپ کے انعقاد کی دعاؤں سے نوازا جبکہ جنوبی افریقی صدر جیکب زوما نے رواں سال بھارت میں ہونے والی کامن ویلتھ گیمز کی میزبانی پر مبارکباد پیش کی۔ زوما نے سونیا گاندھی کو اپنے ہاں فٹ بال ورلڈ کپ کی تقاریب میں حصہ لینے کی دعوت بھی دی۔ اس طرح دونوں ممالک کے مابین مذاکرات کی ایک اچھی فضا قائم ہوئی۔ تاہم فٹ بال کے لاکھوں کروڑوں بھارتی فین دہلی میں دونوں لیڈروں کے مابین ہونے والی سیاسی اور سفارتی بات چیت کا بغور جائزہ لے رہے تھے، مگر افسردہ اور دکھ بھرے جذبات کے ساتھ، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان کی قومی فٹ بال ٹیم ورلڈ کپ میں کامیابی کے حصول سے بہت دور ہے۔
عالمی شہرت کے حامل بھارتی فلم اسٹار شاہ رُخ خان ان دنوں مغربی دنیا میں اپنی فلم ’مائی نیم ازخان‘ کے سبب ہدف تنقید بنے ہوئے ہیں۔ جرمن ہفت روزہ جریدہ ’دی سائٹ‘ لکھتا ہے: ناقدین اب تک شاہ رخ خان کا نام سنتے ہی ہلکے پھلکے انداز میں مسکرا دیا کرتے تھے۔ بالی وُڈ اسٹار کی منکسرالمزاج شخصیت کے سبب اور اس لئے بھی کہ جس طرح خان اپنی ادا کاری کے فن سے لوگوں کے دل جیت سکتے ہیں، کوئی اور ایسا نہیں کرسکتا۔ خاص طور سے جرمنی میں خواتین شاہ رخ خان کی شخصیت کو ایک آئیڈیل مرد سے تعبیر کرتی ہیں۔ فلم مائی نیم از خان میں مردانہ وجاہت کی کشش والے شاہ رخ نے کسی حد تک بے وقوفانہ کردار ادا کیا، جس سے ان کا روایتی امیج کسی حد تک مجروح ہوا۔ مائی نیم از خان یقیناً روایتی بالی وُڈ فلم نہیں ہے اور برلن میں فلمی ناقدین نے اسی لئے اس پر تنقید بھی کی۔
پاکستان میں مسلم انتہا پسندوں نے دارالحکومت اسلام آباد سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر افغانستان متعینہ نیٹو فوجیوں کے لئے سامان رسد لے جانے والے ٹرکوں کے ایک اڈے پر حملہ کیا۔ پاکستانی دارالحکومت سے اتنے قریب اس قسم کے حملے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ اخبار نوئے زیورشر تحریر کرتا ہے: تازہ ترین حملہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان میں سلامتی کی صورتحال کس قدر نازک یا غیر محفوظ ہے۔ ماضی میں ہونے والے دیگر حملوں کی طرح گزشتہ بدھ کی شب کو رونما ہونے والے اس دہشت گردانہ حملے سے یہ ظاہر ہو گیا ہے کہ طالبان باغی افغانستان میں نیٹو فوجیوں کے لئے سامان رسد کے راستوں کو مزید تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے راستے سامان رسد کی ترسیل پر آنے والے بہت بھاری مادی اخراجات اور انسانی جانوں کے نقصان کے پیش نظر نیٹو ایک عرصے سے کسی متبادل راستے کے انتخاب پر غور کر رہا ہے۔ وسطی ایشیائی راستہ اہم ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ محفوظ ہوگا بلکہ مختصر بھی۔ تاہم افغانستان کے شمالی پڑوسی ہندو کُش میں جاری جنگ میں ملوث ہونے کے سلسلے میں زیادہ دلچسپی ظاہر نہیں کر رہے اور اس بارے میں ہونے والی بات چیت لاحاصل ہی رہتی ہے۔
وفاقی جرمن پارلیمان میں بائیں بازو کے ایک ممبر اور اقتصادی اشتراک عمل اور ترقیاتی امور کی کمیٹی کے رکن Niema Movassat ابھی حال ہی میں بنگلہ دیش کے دورے پر تھے۔ سوشلسٹ اخبار نوئس ڈوئچ لینڈ نے عالمی اقتصادی بحران کے موجودہ دور کے پس منظر میں ترقی پذیر ملک بنگلہ دیش کی صورتحال کے بارے میں اس جرمن رکن پارلیمان سے بات چیت کی۔ جرمن پارلیمان کے اس رکن کے مطابق بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل کے شعبے میں کام کرنے والوں کے حالات کار میں بہت زیادہ بہتری کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں اہم ترین ذمہ داری کثیر القومی آجرین یا سرمایہ کاروں اور بنگلہ دیش کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اس بارے میں سیاسی عزم کا واضح فقدان پایا جاتا ہے۔ اس کی وضاحت اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ بنگلہ دیشی پارلیمان کے 29 ارکان ایسے ہیں، جو ٹیکسٹائل انڈسٹری کے کئی بڑے ملکی اداروں کے مالک ہیں۔
تحریر: آنا لیہمان / کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک