جنوبی ایشیا کےحالات پر جرمن پریس کا ہفتہ وار جائزہ
25 جنوری 2010فرانسيسی اخبار Le Monde Diplomatique کی جرمن اشاعت ميں افغانستان ميں پاکستان اور بھارت کے مفادات کا ذکر کيا گیا ہے۔ پاکستان کو افغانستان ميں بھارت کی تعمير نو کی سرگرميوں پر تشويش ہے اور وہ يہ سمجھتا ہے کہ بھارت افغانستان ميں اپنے اثر کو خصوصاً بلوچستان کو غير مستحکم بنانے کے لئے استعمال کرے گا۔ بھارت، افغانستان کے راستے وسط ايشيا تک مراعاتی رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ اگر بھارت اس ميں کامياب ہوجاتا ہے تو اس کے لئے پاکستان کوئی جغرافيائی سياسی رکاوٹ نہيں رہے گا۔
پاکستانی اور بھارتی حکومتيں صرف ايک بات پر متفق ہيں: دونوں، افغانستان ميں بين الاقوامی افواج کی کاميابی کے بارے ميں مشکوک ہيں۔ تاہم دونوں اس سے بالکل مختلف نتائج اخذ کرتی ہيں۔
پاکستان يہ سمجھتا ہے کہ مغربی افواج جلد يا بدير افغانستان سے نکل جائيں گی۔ اس لئے اُسے اُن طالبان گروپوں سے لڑنے ميں کوئی دلچسپی نہيں ہے جو غالباً مستقبل قريب میں افغانستان پر حکمران ہوں گے۔ اس لئے پاکستان ان طالبان گروپوں اور افغان حکومت کے مابين مذاکرات کی سختی سے مخالفت کررہا ہے۔ اس طرح اسلام آباد خود کو ايک ناگزير ثالث کے طور پر پيش کرنا چاہتا ہے جو بالکل شروع کے مرحلے ہی ميں مذاکرات پر اپنا اثر ڈال سکتا ہے۔
اس کے برعکس بھارت افغانستان سے مغربی افواج کی بتدريج واپسی پر خوفزدہ ہے۔ اخبار مزيد لکھتا ہے کہ مغربی اتحادی، ايک ايسا منتشر افغانستان چھوڑ کر جائيں گے جو کسی تحفظ کے بغير غير ملکی طاقتوں، مثلاً پاکستان کے رحم و کرم پر ہوگا۔ بھارتی سمجھتے ہيں کہ پاکستانی خفيہ ايجنسی اس قسم کی افراتفری سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ اس کے بعد افغانستان ميں دوبارہ دہشت گردوں کے تربيتی کيمپ قائم ہوسکتے ہيں، جو ايک مرتبہ پھر بھارت کو نشانہ بنا سکتے ہيں۔ بھارت کو پاکستان ميں بڑھتے ہوئے عدم استحکام سے سب سے زيادہ خطرہ ہے۔ انتہائی مايوس سوچ رکھنے والے بھارتيوں کو انديشہ ہے کہ افغانستان کے تنازعے ميں شدت پيدا ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی غير مستحکم ہو سکتا ہے اور اس طرح بھارت کے بالکل قريب ہی ايک ایسا بحران پيدا ہوسکتا ہے جو قابو سے باہر ہوگا۔
اخبار Frankfurter Allgemeine Zeitung لکھتا ہے کہ افغانستان ميں اتحاديوں کی پائيدار، سياسی طور پر فائدے مند فتح کے امکانات پچھلے آٹھ برسوں منں بڑھنے کے بجائے کم ہوگئے ہيں۔ فيصلہ کن بات يہ ہوگی کہ طالبان کے شدت پسند گروپ کا کيا مطالبہ ہے، وہ کتنے عرصے تک مزاحمت کرسکتا ہے، اگلے برسوں ميں اسے پاکستان کی سرحدوں کے دونوں اطراف کتنی مدد ملتی ہے ،وہ کتنی نئی قوتوں کو اکٹھا کرسکتا ہےاور پاکستان ميں حالات کيا رخ اختیار کرتے ہيں۔ افغانستان اور پاکستان کی سرحدوں کے دونوں جانب پشتونوں کی ايک خود مختار طاقت بن جانے کے خطرات کا اندازہ لگانا مشکل ہے اور اس پر قابو پانا اور بھی زيادہ مشکل ہو گا۔ دونوں ملکوں ميں پشتونوں کی آزادی کی تحريک ان ملکوں کے وجود کو خطرے ميں ڈال دے گی۔افغانستان کے شما ل ميں ازبکوں اور تاجکوں کے پرانے اتحاد کا دوبارہ ابھرنا شمالی افغانستان کے استحکام کے لئےتو اچھا ہوسکتا ہے، ليکن بقيہ افغانستان کے لئے اس کے اثرات خراب ہوسکتے ہيں،خاص طور پراگر اس کی وجہ سے پشتونوں کی عليحدگی يا تنازعے ميں پختگی پيدا ہوتی ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: ندیم گِل