جنوبی وزیرستان میں مرکزی شاہراہ کی تعمیر ، عسکریت پسندی کے خاتمے کی جانب ایک اہم پیشرفت
3 نومبر 2011انجینئرز کو آرمی جوانوں کی جانب سے تحفظ فراہم کیا گیا ہے اوراس یقین کے بعد کہ دہشتگردوں کی جانب سے کسی کارروائی کا خطرہ نہیں بھاری مشینری کی مدد سے شاہراہ کی تعمیر تیزی سےجاری ہے۔ حکومت اور فوج کو قوی امید ہے کہ اس پسماندے علاقے کو ملک کے دیگر مرکزی حصوں سے ملانے کے بعد انہیں عسکریت پسندوں پر برتری حاصل ہو جائے گی۔
شورش زدہ جنوبی وزیرستان کےعوام کے دل جیتنے کے لیے شروع کیے گئے فوری نوعیت کے کئی منصوبوں میں سے شاہراہ کی تعمیر بھی ایک اہم منصوبہ ہے۔ اس علاقے کو دنیا کے خطرناک عسکریت پسند گروپوں کا مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان آرمی کے تعمیراتی اور سول انجینئرنگ ونگ کے ترجمان زاہد راجہ نے اس حوالے سے بتایا کہ معاشی صورتحال کی بہتری سے عسکریت پسندی کی ذہنیت کو تبدیل کیا جا سکتا ہے ان کا کہنا تھا کہ جب کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو گا تو لوگوں میں عدم تشدد کا رویہ پروان چڑھے گا۔
ماضی میں پاکستان نے جنوبی وزیرستان اور اس سے ملحقے علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف کئی کارروائیاں کی ہیں۔ یہ عسکریت پسند امریکہ کی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف سرگرم ہیں۔ ان عسکریت پسندوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے باوجود یہ گروپ کمزور نہیں ہوئے ہیں اور پاکستانی طالبان اپنی مرضی سے خودکش دھماکے کرتےدکھائی دیتے ہیں۔ اس صورتحال میں آرمی ایک جامع منصوبہ بندی کے ساتھ اس علاقے میں شاہراہ کی تعمیر کے لیے کوشاں ہے جس کی تعمیر سے جنوبی وزیرستان کا رابطہ ملک کے دیگر بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ افغانستان کے ساتھ بھی ہو جائے گا۔ اگر یہ منصوبہ کامياب ہو گیا تو اس سے ایک غیر مقبول حکومت کوشورش زدہ سرحدی علاقے میں کافی پزیرائی مل سکتی ہے جسے قیام پاکستان سے لے کر ابتک نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔
طالبان بھی اس سڑک کی تعمیرکو اپنے لیے ایک خطرہ سمجتھے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ شاہراہ کی تعمیر میں مصروف انجینئرز اور فوجیوں کو مارنے کے لیے خودکش بمبار بھیجنے کے علاوہ کئی دوسرے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات میں جنوبی وزیرستان بھی شامل ہے۔ یہ نیم خودمختار قبائلی علاقے کبھی بھی مکمل طور پر پاکستان کے اقتصادی اور انتظامی امور کے ماتحت نہیں آئے ہیں۔ ان علاقوں میں انتطامی امور کی انجام دہی کے لیے برطانوی سامراجی دور کے نظام کو ابھی تک استعمال کیا جاتا ہے۔ حکومت یہاں مختلف قبیلوں سے رابطے کے لیے پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کرتی ہے۔ یہ پولیٹیکل ایجنٹ پاکستانی قوانین کی بجائےصدیوں پرانے رسم و رواج پر عمل کرتے ہیں۔
پاکستان میں انٹیلی جنس کے شعبے سے وابسطہ سابق عہدہ دار محمود شاہ اس شاہراہ کے منصوبے کو خوش آئند قرار دیتے ہوے کہتے ہیں کہ گزشتہ ساٹھ سال کے عرصے میں پہلی بار حکومت نے ان قبائلی علاقوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اس سے پہلے اسلام آباد میں ان علاقوں کے متعلق کوئی نہیں جانتا تھا۔
اس سے قبل بھی ان قبائلی باشندوں نے یہاں حکومت کی جانب سے سڑکوں، سکولوں، ہسپتالوں کی تعمیر اور نوکریوں کی فراہمی کے کھوکھلے دعوے سنے ہیں لیکن اس بار حکومتی عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ شاہراہ کی تعمیر کے لیے ملنے والے اکیاسی ملین ڈالرز کے فنڈ کی فوری دستیابی سےاس منصوبے کو سن دو ہزار تیرہ تک مکمل کر لیا جائے گا۔ سڑک کے تعمیراتی منصوبے میں شامل ایک اہلکار محمد علی کا کہنا ہے کہ سکیورٹی خطرات کے باوجود ہم اس منصوبے کی جلد تکمیل کے لیے کوشاں ہیں۔ایک مقامی قبائلی رہنما سیف الرحمان وزیر نے کہا کہ اس منصوبے کا انہیں طویل مدت سےانتظارتھا اور اب جا کر یہ دیرینہ خواب پورا ہو رہا ہے۔ چھبیس سالہ میر امان کے سیب کے باغات ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ اگر یہاں اچھی سڑک ہو گی تو کاروبار کے مواقع زیادہ ہوں گے۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت:عابد حسین