جنوبی کوریا نے وبا پر قابو پانے کے لیے کیا کیا؟
25 مارچ 2020صورت حال پر قابو پانے کے لیے کئی ملکوں کے برعکس جنوبی کوریا نے مکمل لاک ڈاؤن اور شہریوں کی نقل و حرکت پر کڑی پابندیاں نہیں لگائیں، بلکہ اپنی توجہ متاثرہ افراد کی تشخیص اور انہیں محدود کرنے پر مرکوز کی۔
حکام نے شہریوں میں مرض کی تشخیص کے لیے جگہ جگہ چیک پوائنٹ اور خیمے قائم کیے، جہاں جو چاہے جب چاہے کورونا کا مفت ٹیسٹ کرا سکتا ہے۔
ملک میں اب تک قريب تین لاکھ لوگ اپنا ٹیسٹ کرا چکے ہیں اور روزانہ مزید بیس ہزار کے لگ بھگ شہری اپنا ٹیسٹ کرا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں جنوبی کوریا نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ’ڈرائیو تھرو‘ ٹیسٹنگ کی سہولت بھی متعارف کرائی، جسے پھر دیگر ملکوں نے بھی اپنایا۔
نتیجہ یہ کہ جنوبی کوریا میں کورونا وائرس کے ٹیسٹ کرانے والوں کی تعداد امریکا اور جرمنی جیسے ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔ جن لوگوں میں کورونا وائرس پایا گیا، انہیں سیدھا قرنطینہ روانہ کر دیا جاتا ہے۔ چاہے انہیں بخار اور نزلے زکام کا علامات ہوں یا نہ ہوں۔ جنوبی کوریا میں ایسے مریضوں کی تعداد تیس فیصد بتائی گئی ہے، جو کہ چین اور جاپان کے اعدادوشمار سے ملتی ہے۔ لیکن یہ معلومات عالمی ادارہ صحت کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق یورپی یونین میں وائرس سے متاثرہ لیکن بظاہر بالکل صحت مند لوگوں کی تعداد ایک یا تین فیصد سے زائد نہیں۔
جنوبی کوریا میں اگر کوئی مریض قرنطینہ سے بھاگنے کی کوشش کرے تو خلاف ورزی کرنے والے کو ڈھائی ہزار ڈالر تک کا جرمانہ ہو جاتا ہے۔ حکام اس جرمانے کو مزید سخت کر کے تین گنا بڑھانے اور ساتھ ایک سال قید کی سزا دینے پر غور کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جنوبی کوریا کا کورونا ٹیسٹنگ پروگرام، ایک منظم لیکن مہنگا پروگرام ہے، جس کے لیے اکثر ملکوں کے پاس وسائل نہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جنوبی کوریا میں حکومت کے پاس شہریوں کی نجی معلومات تک رسائی آسان ہے، جس کے باعث شاید مریضوں اور ان کے ساتھ رابطے میں آنے والوں کو ڈھونڈ نکالنا آسان ہے۔ یورپی ممالک میں حکام کے اوپر آئینی اور قانونی قدغنیں ہوتی ہیں کہ وہ آسانی سے شہریوں کی ذاتی معلومات تک رسائی نہیں حاصل کر سکتے۔ لیکن جنوبی کوریا میں دو ہزار پندرہ میں اسی طرح کی وبا کی روک تھام کی کوششوں کے بعد حکام کے پاس وسیع اختیارات ہیں کہ وہ لوگوں کے کریڈٹ کارڈ سے لے کر ان کے میڈیکل اور فون ریکارڈ تک حاصل کرکے ان کی نقل و حرکت کا پتہ لگا سکتے ہیں۔
ش ج / ع س، نيوز ايجنسياں