جنوبی کیلیفورنیا ’تھومس فائر‘ کے شعلوں کی لپیٹ میں
کیلیفورنیا کی تاریخ کی تیسری سب سے بڑی آگ نے، جسے تھومس فائر کا نام دیا گیا ہے، دو ہفتوں میں دو لاکھ سڑسٹھ ہزار ایکڑ رقبے کو جلا کر راکھ کر ڈالا ہے۔ نو ہزار کے قریب فائر فائٹرز اس آگ کو بجھانے میں مصروف ہیں۔
بڑے پیمانے پر انخلا
ہفتہ سولہ دسمبر کے روز سانتا باربرا کاؤنٹی کے رہائشیوں کو علاقہ خالی کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ انخلا کا حکم لاس اینجلس کے شمال مغرب میں واقع قصبے مونٹیسیٹو کے باسیوں کو بھی دیا گیا ہے۔ اس سے قبل قریب ایک لاکھ افراد کو اُن کے گھروں سے محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔
آگ بجھانے والے کارکن جدوجہد میں مصروف
ساڑھے آٹھ ہزار آگ بجھانے والے ارکان ’تھومس فائر‘ سے بر سر پیکار ہیں۔ ان اہلکاروں کی مدد کے لیے چونتیس ہیلی کاپٹر بھی بھیجے گئے ہیں۔ سن 1932 کے بعد سے یہ کیلیفورنیا کے جنگلوں میں لگنے والی تیسری بڑی آگ ہے۔
وجہ تسمیہ
اس ہولناک آگ کو ’تھومس‘ کا نام علاقے کے تھومس اکوائینس کالج کے نام پر دیا گیا ہے۔ نام دیے جانے کا پس منظر یہ ہے کہ یہ آگ مبینہ طور پر اسی جگہ سے دیگر علاقوں میں پھیلی تھی۔
گھر بھی آتش زدگی کی لپیٹ میں
ہوا میں نمی کا تناسب بہت کم ہونے اور تیز ہوائیں چلنے کے سبب آگ نے علاقے کو تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور 1000 کے قریب عمارتوں کو جلا کر خاکستر کر ڈالا۔ ان متاثرہ عمارتوں میں سات سو گھر بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں مزید 1800 عمارتیں تھومس فائر سے جزوی طور پر متاثر ہوئی ہیں۔
عمارتوں کو بچانے کی کوشش
نک ریزو نامی ایک فائر فائٹر کی یہ تصویر کل ہفتے کے روز لی گئی تھی جو مونٹیسیٹو کی عمارتوں کو آگ سے بچانے کے لیے ایک پہاڑی پر سے پانی کا پائپ کھینچے لیے جا رہا ہے۔ اس آگ کے سبب متعدد اسکول بھی بند کر دیے گئے ہیں۔
بڑا نقصان
چار دسمبر سے لگی اس آگ نے اب تک لاکھوں ایکڑ رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اندازوں کے مطابق اب تک اس آگ کی وجہ سے تقریباً ستانوے ملین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔