جنگل جلانا شریعت کی رُو سے حرام ہے، انڈونیشی علماء کا فتویٰ
14 ستمبر 2016انڈونیشیا کے مذہبی علماء کے سب سے اعلیٰ ادارے نے جنگلات میں آگ لگانے کو شرعی اعتبار سے اسلامی اقدار کے منافی قرار دے دیا ہے۔ ادارے کے مطابق اسلامی شریعت کے تحت ایسے افعال حرام ہیں جو انسان کے لیے مسائل پیدا کریں۔ مذہبی ادارے نے کہا کہ قران میں واضح کیا گیا ہے کہ ماحول کو نقصان پہنچانا جائز نہیں ہے۔ سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ اس فتوے کا جرائم پیشہ افراد پر بظاہر کوئی اثر مرتب نہیں ہو گا لیکن عام مسلمان یقینی طور پر اِس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔
انڈونیشیا کے مذہبی ادارے ’حزیمہ تاحیدو یانگو‘ کی فتوٰی کونسل نے اپنے شرعی حکم میں کہا کہ جنگلات میں آگ لگانے سے انسان کی صحت خراب اور جسم کو بیماریوں کا سامنا ہو سکتا ہے جبکہ اسلام کسی انسان کو تکلیف دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ امر اہم ہے کہ انڈونیشی جنگلات کی آگ کے دھوئیں سے ماحولیاتی آلودگی پر ہمسایہ ملکوں نے بھی شکایت کی تھی۔
علماء کے مطابق یہ شکایت دین میں ہمسایے کے وضح کردہ حقوق کے منافی سرگرمی بھی ہے۔ اِس فتوے میں واضح کیا گیا ہے کہ ایسی زمین جس پر درخت اُگ سکیں، اُسے خراب کرنا بھی جائز نہیں۔
انڈونیشی جزیرے سماٹرا کے علاوہ بورنیو کے جنگلات میں لگائی جانے والی آگ سے اٹھنے والے گہرے دھوئیں نے فضائی ماحول کو شدید آلودہ کیا تھا۔ پھیپھڑے اور سینے کے عارضوں میں مبتلا افراد کو سانس لینے میں دشواریوں کا بھی سامنا رہا۔ اس آگ کے گہرے سیاہ دھوئیں سے قریب ہمسایہ ملکوں کی فضا بھی مکدر ہو گئی تھی۔ جکارتہ حکومت سے سنگاپور اور ملائیشیا کی حکومتوں نے شکایت کی تھی کہ اِس دھوئیں سے اُن کے ملکوں کے شہریوں نے سانس لینے میں دشواری کا سامان کیا تھا۔
سماجی اور اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ مذہبی کونسل کے فتوے میں قوت نافذہ نہیں لیکن کٹر مذہبی لوگ اِس کی حُرمت کا احساس کرتے ہوئے آگ لگانے والے افراد کو قابو کرنے میں حکومتی کارروائیوں کا حصہ بن سکتے ہیں۔ انڈونیشیا کی خاتون وزیر ماحولیات و جنگلات ستی نُوربایا بکر نے اِس فتوے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اب مسلمان مبلغین اِس فتوے کو مختلف دیہاتوں میں اپنی تبلیغ کے ذریعے پہنچا کر فلاح و بہبود کے عمل میں شامل ہوں۔ انڈونیشیا میں حکومت جنگلوں میں آگ لگانے کو منظم جرائم پیشہ گروپوں کی کارروائی قرار دیتی ہے۔