جنگوں کے خاتمے پر مہاجرین کو جرمنی سے لوٹنا ہو گا، میرکل
30 جنوری 2016انگیلا میرکل نے یہ بیان بظاہر اپنی حکومت کی ’مہاجر دوست‘ پالیسی کے ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے دیا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے سے میرکل کو تارکین وطن کی آمد کو روکنے کے مطالبات کے باعث شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ تاہم اس دباؤ اور شدید سیاسی مشکلات کے باوجود جرمن سربراہ حکومت حزب اختلاف اور اپنی مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کی جانب سے پناہ گزینوں کی ایک حد مقرر کیے جانے کے مطالبات کو بارہا مسترد کرتی رہی ہیں۔
پھر سال نو کے موقع پر کولون میں ہونے والے جنسی حملوں کے بعد ایسے سوالات سامنے آنا شروع ہو گئے تھے کہ آیا جرمنی اتنے زیادہ مہاجرین کی آمد کی وجہ سے پیدا شدہ صورت حال سے نمٹنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ رواں برس کے آغاز سے میرکل کے لیے اپنی حلیف جماعت کرسچن سوشل یونین اور اپنی ہی پارٹی کرسچن ڈیموکریٹک یونین میں پائی جانے والی حمایت میں کمی بھی دیکھی جا رہی ہے۔
ان حالات میں چانسلر میرکل کا اب کہنا ہے کہ اگرچہ مہاجرین کے سماجی انضام اور ان کی مدد کی کوششیں کی جا رہی ہیں، تاہم ان تارکین وطن کو یہ بھی واضح انداز میں بتایا جانا چاہیے کہ انہیں جرمنی میں صرف محدود مدت کے لیے ہی قیام کی اجازت دی جا رہی ہے۔
میرکل نے مشرقی صوبے میکلن برگ بالائی پومیرانیا میں اپنی جماعت کے اراکین کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’ہمیں ان لوگوں (مہاجرین) کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ انہیں صرف عارضی طور پر جرمنی میں قیام کی اجازت دی گئی ہے۔ اور ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ جب شام میں دوبارہ امن قائم ہو جائے گا، جب آئی ایس کو عراق میں شکست دے دی جائے گی، تو انہیں واپس اپنے اپنے ملکوں کو لوٹنا ہو گا۔‘‘
وفاقی چانسلر کا یہ بھی کہنا تھا کہ 90 کی دہائی میں جنگوں کے باعث سابق یوگوسلاویہ سے جرمنی آنے والے مہاجرین میں سے بھی 70 فیصد سے زائد واپس چلے گئے تھے۔
انگیلا مریکل کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب کہ حال ہی میں کرسچن سوشل یونین (CSU) کے سربراہ اور جنوبی صوبے باویریا کے وزیر اعلیٰ ہورسٹ زے ہوفر نے وفاقی حکومت کو یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر مہاجرین کی آمد روکنے کے لیے میرکل انتظامیہ نے کافی اقدامات نہ کیے، تو سی ایس یو وفاقی آئینی عدالت میں حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کر دے گی۔