جنگی جرائم کے مرتکب کاراچچ کو دی ہیگ پہنچا دیا گیا
30 جولائی 2008اقوم متحدہ کے ترجمان نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ کاراچچ کو ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں واقع بین الاقوامی جنگی جرائم کی عدالت کے قریب ہی ایک حوالات میں رکھا گیا ہے جہاں انہیں نسل کشی کے الزام کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کاراچچ پرساراجیوو میں جنگی کارروائی اور سن انیس سوپچانوے میں سربینٹزا میں آٹھ ہزار مسلمان مردوں اور لڑکوں کے قتل عام کے جرم میں باقاعدہ طور پر سزا سنائی جاچکی ہے۔ جودوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں یہ سب سے بڑا تشدد کا واقعہ ہے۔
ہیگ میں جنگی جرائم کی عدالت کی تحویل میں دینے سے قبل سربیا میں جنگی جرائم کی ایک خصوصی عدالت نے رادوان کاراچچ کو جنگی مجرم قرار دیا تھا اورساتھ ہی عدالت نے کاراچچ کے سات ساتھیوں کو قتل عام کا مجرم قرار دیتے ہوئے 38 تا 42 سال تک کی قید کی سزا سنائی ۔
مفرور رادوان کارچچ کو جنگی جرائم کا مرتکب ہونے کے تیرہ سال بعد گزشتہ ہفتے سربیا کے دارلحکومت بلغراد میں گرفتار کیا تھا۔ کارچچ کو ہیگ کی عدالت کے حوالے کرنے پر ، گزشتہ روز تقریبا پندرہ ہزار مظاہرین نے ان کے حق میں احتجاج کیا۔ رادوان کاراچچ کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں کے ہاتھوں میں ان کی تصاویر اور حمایتی بینرتھے۔
بوسنیائی سرب رہنما اوراقوام متحدہ کی جنگی عدالت کو مطلوب گرفتار شدہ رادووان کراچچ کے حامیوں اور پولیس کے درمیان زبردست جھڑپیں ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں کم از کم چھیالیس افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ملیں، جن میں عام شہری اور پولیس اہلکار دونوں شامل ہیں۔ واضح رہے کہ سربیائی باشندوں کے نزدیک کاراچچ نہ صرف سریائی قوم کے محافظ بلکہ ایک ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں۔
کاراچچ کی گرفتاری کے بعد بلغراد میں ان کے سینکڑوں حامیوں نے سربیا کے صدر بورس ٹاڈچ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ کاراچچ کے حامی یہ نہیں چاہتے تھے کہ بلغراد حکومت انہیں جنگی جرائم کی عالمی عدالت کو سپرد کرے۔ جبکہ یورپی یونین بھی بلغراد حکومت سے یہی توقع رکھتی ہے۔ تاہم پورپی یونین میں شمولیت کے حامی موجودہ سرب صدر بورس ٹاڈچ اس وقت کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہتے جس سے سربیا کی یورپی یونین میں شمولیت مشکوک بن جائے۔