1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جو بائیڈن اور اشرف غنی کے درمیان ملاقات سے توقعات کیا ہیں؟ 

21 جون 2021

ایک ایسے وقت جب افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی طالبان مزید طاقتور ہوتے جا رہے ہیں، افغان صدر اشرف غنی اپنے امریکی ہم منصب سے بات چیت کے لیے امریکا کے دورے پر جانے والے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3vGLH
Afghanistan l Nationaler Tag der Sicherheitskräfte in Kabul, Präsident Ghani
تصویر: Afghan Presidency Press Office/AA/picture-alliance

وائٹ ہاؤس نے 20 جون اتوار کے روز کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن اس ہفتے کے اواخر میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کریں گے۔ اس دوران بین الاقوامی افواج کے انخلا سے قبل افغانستان میں تشدد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔

ایک ایسے وقت جب امریکی اور دیگر بیرونی افواج ملک سے مکمل طور پر نکل جانے کی تیاری میں مصروف ہیں ملک کے متعدد علاقوں میں افغان فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ فوجی انخلا کا آغاز گزشتہ ماہ ہوا تھا جسے اس برس گیارہ ستمبر سے پہلے تک مکمل ہونا ہے۔

 اس ہفتے جمعے کے روز جو بائیڈن اور ان کے افغان ہم منصب اشرف غنی کے درمیان بات چیت متوقع ہے اور یہ صدر بائیڈن کے اس برس جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد دونوں کی پہلی ملاقات ہوگی۔ اطلاعات کے مطابق امریکی صدر افغانستان کو سفارتی، معاشی اور ہر طرح کی انسانی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کریں گے تاکہ ملک کو دوبارہ شدت پسندوں کا ٹھکانہ بننے سے باز رکھا جا سکے۔

لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب سے امریکا اور بیرونی افواج نے انخلا کا اعلان کیا ہے اسی وقت سے افغان فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں جس کے نتیجے میں طالبان نے ملک کے تقریباً 30 مزید اضلاع پر اپنا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

طالبان کا رد عمل کیا ہے؟

 افغان صدر اشرف غنی قومی مفاہمت کی اعلی کونسل کے سربراہ عبد اللہ عبداللہ کے ساتھ امریکا کا دورہ کرنے والے ہیں اور صدر بائیڈن سے جمعے کو ملاقات ہوگی۔ تاہم طالبان قیادت نے اشرف غنی کے دورہ امریکا کو بیکار کی کوشش بتا کر مسترد کر دیا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا، ''وہ اپنے اقتدار، طاقت اور اپنے ذاتی مفاد کے تحفظ کے لیے امریکا سے بات چیت کریں گے۔ اس سے افغانستان کا تو کچھ بھی بھلا نہیں ہو گا۔'' افغان صدر کی جانب سے اس دورے کے بارے میں کوئی باقاعدہ بیان نہیں آیا تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بعض سینیئر افغان حکام کا کہنا ہے کہ وہ امریکا سے سکیورٹی کی ضمانت چاہتے ہیں۔

Schweiz l Biden und Putin treffen sich in Genf l PK Biden
تصویر: Patrick Semansky/AP/picture alliance

 بائیڈن کا منصوبہ کیا ہے؟

 امریکا ان افغان شہریوں کو اپنے ملک میں محفوظ مقام فراہم کرنے پر بھی غور کر رہا ہے جو گزشتہ دو عشرے سے نیٹو کے زیر قیادت اتحاد کے لیے کام کرتے رہے ہیں کیونکہ اس بات کے خدشات پائے جاتے ہیں کہ طالبان ایسے افراد اور ان کے اہل خانہ کے خلاف انتقامی کارروائی کر سکتے ہیں۔

اس ماہ کے اوائل میں ہی کانگریس کے 20 ارکان نے صدر جو بائیڈن کے نام اپنے ایک مکتوب میں اپیل کی تھی کہ ایسے 18 ہزار سے بھی زیادہ ترجمانوں اور ان کے اہل خانہ کو فوری طور پر افغانستان سے نکالنے کی ضرورت ہے جنہوں نے امریکا آنے کے لیے ویزے کی درخواستیں جمع کرائی ہیں۔

ڈیموکریٹ اور ریپبلیکنز دونوں جماعتوں کے ارکان نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ امریکا میں امیگریشن کے لیے ایسی ایک درخواست پر عمل کے لیے عموماً سوا دو برس کا وقت لگتا ہے جبکہ انخلا میں اب بمشکل 100 روز کا وقت بچا ہے اس لیے ایسے افراد کی درخواستوں پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔

امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سولین نے اتوار کے روز اسی معاملے بات چیت کے دوران کہا کہ وائٹ ہاؤس کے لیے یہ بہت اہم معاملہ ہے اور ایسے افراد کی درخواستوں پر کارروائی کو تیز تر کر دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''ہم ان درخواستوں پر کارروائی کر رہے ہیں اور ایسے لوگوں کو ریکارڈ رفتار سے نکال رہے ہیں۔ کچھ ضروری چیزوں کو مزید بہتر کرنے کے لیے، جن کی وجہ سے یہ عمل سست روی کا شکار ہے، ہم اس وقت کانگریس کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔''

انہوں نے اس موقع پر ان قیاس آرائیوں کو مسترد کر دیا کہ صدر جو بائیڈن فوجی انخلا سے متعلق اپنے منصوبے پر پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔

مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں

قطر میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات بدستور تعطل کا شکار ہیں۔ ان کا آغاز گزشتہ برس ستمبر میں ہوا تھا تاہم  اس سلسلے میں گزشتہ تقریبا ڈھائی ہفتوں کے درمیان جو ملاقاتیں ہوئیں اس میں کسی طرح کی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

اتوار کے روز طالبان نے کہا تھا کہ وہ امن مذاکرات کے لیے اپنے عزم پر قائم ہیں تاہم ان کا زور اس بات پر تھا کہ وہ ملک میں حقیقی اسلامی نظام چاہتے ہیں۔    

ص ز / ج ا  (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز) 

امریکی فوجیوں کا تباہ شدہ سامان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں