جواد ظریف صرف گیارہ دن ایرانی نائب صدر رہنے کے بعد مستعفی
12 اگست 2024ایرانی دارالحکومت تہران سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق دو ہفتے سے بھی کم عرصہ قبل ملکی نائب صدر نامزد کیے گئے جواد ظریف نے آج پیر 12 اگست کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ''نئی ملکی حکومت کے کام میں رخنہ ڈالنے کے حوالے سے کسی بھی طرح کی ممکنہ سوچ یا شبہات کو روکنے کے لیے میں نے گزشتہ ہفتے اسٹریٹیجک امور کے لیے ملکی نائب صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔‘‘
امریکہ سے تعلیم یافتہ محمد اسلامی ایرانی جوہری پروگرام کے سربراہ مقرر
جواد ظریف کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ ماضی میں کئی برسوں تک نہ صرف ایران کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں بلکہ انہوں نے ان مذاکرات میں بھی کلیدی کردار اد اکیا تھا، جن کی کامیاب تکمیل پر 2015ء میں تہران کے متنازعہ جوہری پروگرام سے متعلق ایران اور متعدد عالمی طاقتوں کے مابین ایک جوہری معاہدہ طے پایا تھا۔
محض چند روز کے لیے ملکی نائب صدر
جواد ظریف کو ایران کے نومنتخب صدر مسعود پزشکیان نے ابھی دو ہفتے سے بھی کم عرصہ پہلے اسٹریٹیجک امور کے لیے اپنا نائب نامزد کیا تھا اور ظریف کے بقول انہوں نے چند روز بعد گزشتہ ہفتے ہی اپنے اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
نئے صدر مسعود پزشکیان نے ابھی کل اتوار 11 اگست کے روز ہی اپنی 19 رکنی کابینہ کو حتمی شکل دی تھی اور اس کے ارکان کے نام منظوری کے لیے ملکی پارلیمان میں پیش کیے تھے۔ ان 19 وزراء میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔
جواد ظریف نے اپنے استعفے کی متعدد وجوہات بیان کیں، جن میں سے اہم ترین ملک کی مجوزہ کابینہ کے ارکان کے حوالے سے ان کا ناامید ہونا ہے۔
ظریف نے ایکس پر اپنی آج شائع ہونے والی پوسٹ میں لکھا، ''میں اس بات پر شرمندہ ہوں کہ میں (کابینہ کے ارکان کے طور پر امیدواروں کے انتخاب کی ذمے دار) کمیٹیوں کے ماہرین کی آراء کو اس طرح عملی صورت نہیں دے سکتا تھا کہ جیسے میں نے وعدہ کیا تھا کہ نئی کابینہ میں خواتین، نوجوانوں اور اقلیتی نسلی گروپوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔‘‘
کابینہ کے مجوزہ ارکان کی فہرست پر اصلاحات پسندوں کی تنقید
نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے اپنی تجویز کردہ کابینہ کے ارکان کی جو فہرست منظوری کے لیے ملکی پارلیمان میں پیش کی ہے، اس پر ملک کے کئی اصلاحات پسند سیاست دانوں کی طرف سے تنقید کی جا رہی ہے۔
ان اصلاحات پسند حلقوں کو بڑی شکایت یہ ہے کہ مجوزہ کابینہ میں ایسے قدامت پسند سیاست دانوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، جو پزشکیان کے پیش رو اور اسی سال موسم بہار میں ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں انتقال کر جانے والے صدر ابراہیم رئیسی کی حکومت میں بھی کابینہ کے ارکان تھے۔
جواد ظریف نے اپنے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے اس امر کی نشان دہی بھی کی کہ انہیں نئے ملکی صدر کے نائب کے طور پر اپنی نامزدگی کے بعد سے اس وجہ سے بھی دباؤ کا سامنا تھا کہ ان کے بچوں کے پاس امریکی شہریت ہے۔
ایرانی قانون کیا کہتا ہے؟
ایران میں اکتوبر 2022ء میں منظور کیے گئے ایک قانون کے تحت ایسے ایرانی باشندوں کو حساس عہدوں یا ملازمتوں پر فائز نہیں کیا جا سکتا، جن کے ''پاس خود، یا جن کے شریک زندگی یا جن کے بچوں کے پاس دوہری شہریت ہو۔‘‘
اس پس منظر میں جواد ظریف نے ایکس پر مزید لکھا، ''میرا پیغام ڈاکٹر پزشکیان سے کسی بھی طرح کی ناامیدی یا افسوس یا حقیقت پسندی کی مخالفت کا پیغام نہیں ہے، بلکہ میرے فیصلے کا مطلب خود اپنی ذات کی آئندہ سیاسی افادیت پر شبے کا اظہار ہے کہ آیا میں اسٹریٹیجک امور کے ملکی نائب صدر کے طور پر بہت مفید ثابت ہو سکوں گا۔
نو منتخب ایرانی صدر یورپ کے ساتھ ’بہتر تعلقات‘ کے خواہاں
ساتھ ہی جواد طریف نے یہ بھی کہا کہ وہ آئندہ ایران کی داخلی سیاست پر کم توجہ دیں گے اور واپس تعلیم و تدریس کے شعبے میں جا کر وہاں پوری توجہ سے کام کرتے رہیں گے۔
صرف 11 روز تک ایرانی نائب صدر کے منصب پر فائز رہنے والے جواد ظریف اصلاحات پسند سابق صدر حسن روحانی کے دور میں 2013ء سے لے کر 2021ء تک ایرانی وزیر خارجہ رہے تھے۔
م م / ا ب ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)