جوہری تناؤ میں اضافے سے بچا جائے، اوباما
23 اکتوبر 2015امریکا کے دورے پر پہنچے پاکستانی وزیراعظم نوازشریف سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران اوباما نے پاکستان سے ایک بار پھر مدد طلب کی کہ وہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق طالبان سے مذاکرات اور افغانستان میں قیام امن کے ذریعے وہاں تعینات امریکی فوجیوں کو وہاں سے نکالنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ چند مہینوں کے دوران کافی تناؤ رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کی طرف سے ہتھیاروں کے نئے نظام کی تیاری پر واشنگٹن کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، جن میں چھوٹے جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور انہیں ہدف تک پہچانے کے نظام بھی شامل ہیں۔ امریکا یہ کوشش کرتا رہا ہے کہ پاکستان یکطرفہ طور پر نئے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو روکنے پر حامی بھر لے۔
روئٹرز کے مطابق تاہم اسلام آباد میں موجود پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ہتھیاروں کے پروگرام پر کوئی قدغن قبول نہیں کریں گے۔ ان کی دلیل ہے کہ بھارت کی طرف سے کسی اچانک حملے کو روکنے کے لیے چھوٹے جوہری ہتھیاروں کی تیاری بہت اہم ہے۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے اوباما نے ’’ایسی کسی صورت حال سے بچنے کی ضرورت پر زور دیا جو نیوکلیئر سیفٹی، سلامتی اور اسٹریٹیجک استحکام کے لیے خطرات کا باعث بنے۔‘‘
پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور امریکی صدر باراک اوباما کے درمیان جمعرات 22 اکتوبر کو ہونے والی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں دونوں رہنماؤں کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں اسٹریٹیجک استحکام کے لیے ’تمام فریقین‘ کو ذمہ داری کا مظاہرہ اور مل کر کام کرنا چاہیے۔
بیان کے مطابق اوباما اور شریف نے افغان امن عمل کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعلان کیا اور طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات دوبارہ شروع کریں جو رواں برس پاکستان میں ہونے والی ایک ملاقات کے بعد سے معطل ہیں۔
افغان حکومت اور طالبان نمائندوں کے درمیان جولائی میں پاکستانی شہر مری میں ہونے والی ابتدائی ملاقات کے بعد مذاکرات کا آئندہ دور افغان انٹیلیجنس کی اس خبر کے بعد منعقد نہ ہو سکا کہ طالبان کے سربراہ مُلا عمر دو برس قبل انتقال کر چکے ہیں۔
اوباما سے ملاقات کے بعد پاکستانی وزیراعظم نوازشریف نے مذاکرات کی معطلی کے حوالے سے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’بلاشبہ یہ ایک نقصان تھا اور اس نقصان کے ازالے میں کچھ وقت لگے گا، لیکن ہم دوبارہ کوشش کریں گے۔‘‘