جہادی کیمپ میں بچوں کی اموات، کیا اقوام متحدہ ذمہ دار!
14 اگست 2020اقوام متحدہ کے ایک مقامی دفتر نے شمال مشرقی شام میں واقع ایک کیمپ میں پانچ سال سے کم عمر کے کم از کم آٹھ بچوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔ اس کیمپ میں شام میں جنگی حالات کے دوران ہتھیار پھینک دینے والے داعش (اسلامک اسٹیٹ)کے دہشت گردوں کے خاندانوں اور رشتہ داروں کو مقید رکھا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے بہبودِ اطفال کے ادارے یونیسیف نے بتایا ہے کہ ان بچوں نے چھ اور دس اگست کے درمیان دم توڑا۔ جس کیمپ میں آٹھ بچوں کی اموات ہوئی ہیں، اس کا نام الحوف کیمپ ہے۔ یونیسیف کے مطابق کم عمر بچوں کے مرنے کی بڑی وجہ کیمپ میں غذائیت کی کمی اور ہیضے کی بیماری ہے۔
یونیسیف کے مقامی دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ کسی بھی بچے کا مرنا ایک المیے سے کم نہیں لیکن یہ صورتحال اس وقت زیادہ افسوسناک ہو جاتی ہے جب مرنے والے بچے کی زندگی کو بچانا ممکن ہو۔ اس بیان میں واضح کیا گیا کہ کیمپ میں مقید افراد بنیادی ضروریات تک رسائی نہیں رکھتے اور شدید گرمی کے ساتھ ساتھ انہیں بے گھری اور پرتشدد حالات کا خوف بھی لاحق ہے۔
دوسری جانب بچوں کے معاملات پر نگاہ رکھنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم 'سیو دا چلڈرن‘ نے کیمپ میں بچوں کی ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان بچوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل ناکامی کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر کسی حد تک عائد کی جا سکتی ہے۔
سیو دا چلڈرن کے مطابق رواں برس جنوری میں سکیورٹی کونسل کے ایک سرحدی گزرگاہ بند کرنے کے فیصلے نے کیمپ کے مکینوں کو ادویات کی فراہمی سے محروم کر دیا تھا۔
سیو دا چلڈرن کے شام میں واقع دفتر کی ریسپونس ڈائریکٹر سونیا خوش نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ بارڈر کراسنگ بند کرنے سے الحوف کیمپ میں موجود صحت کی سہولیات میں چالیس فیصد تک کمی ہو گئی تھی۔ سونیا خوش نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ کیمپ میں پیدا مشکل حالات سلامتی کونسل کی ناکام پالیسیوں اور سرحدی گزرگاہ کو کھولنے میں ناقابل معافی تاخیر کا نتیجہ ہے۔
الحوف کیمپ خود مختار کرد انتظامیہ کی نگرانی میں ہے۔ یہی انتظامیہ شمال مشرقی شام کے بیشتر حصے پر غلبہ رکھتی ہے۔ شام میں داعش کے بے شمار ٹھکانوں کی تباہی اور شکست میں اسی کرد انتظامیہ نے امریکی اتحادی فوج کو مدد فراہم کی تھی۔ اقوام متحدہ کے مطابق الحوف کیمپ میں بیشتر خواتین دہشت گردوں کی بیویاں ہیں اور بچوں کی تعداد چالیس پزار کے قریب ہے۔ ان کا تعلق ساٹھ مختلف ممالک سے بتایا جاتا ہے۔
ع ح، ع ا (اے پی، روئٹرز)