جہادیوں کی پسپائی سے موصل کے فٹ بال کی میدان سج گئے
14 اپریل 2017موصل پر دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے قبضے کے عرصے میں فٹ بال کھیلنے کے دوران کئی پابندیوں اور رکاوٹوں کو متعارف کرایا گیا تھا۔ غیر ملکی ٹیموں کی جرسیاں پہننے کو ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ جو اکا دُکا میچ کھیلے جاتے تھے، ان میں سیٹی بجانے کی بھی ممانعت کر دی گئی تھی کیونکہ جہادیوں کے مطابق اس کے بجانے سے شیطان اور اُس چیلے جمع ہوتے ہیں۔ میچ کے دوران، اگر نماز کا وقت ہو گیا تو کھیل روک دیا جاتا تھا۔ فٹ بال کے میچوں میں نیکر کا پہننا بھی خلافِ ضابطہ تھا۔
مشرقی موصل کا قبضہ پوری طرح چھڑایا جا چکا ہے۔ اب اس علاقے میں عمارتوں، بازاروں، تعلیمی اداروں اور فٹ بال کے گراؤنڈز کی بحالی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ عراقی فوج دریائے دجلہ کے دوسری جانب، جو موصل کا مغربی حصہ کہلاتا ہے، اُس کی بازیابی کی عسکری مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔
موصل کے فٹ بال کھیلنے والے ایک کھلاڑی اسامہ علی حامد کا کہنا ہے جب بھی بچے کھچے کلبوں کے درمیان کوئی دوستانہ میچ کھیلا جاتا تو جہادی اسلحے کے ساتھ میچ دیکھنے کے دوران موجود رہتے۔ حامد کے مطابق ایک مرتبہ ایک کھلاڑی جرمن فٹ بال کلب بورُوسیا ڈورٹمنڈ کی جرسی پہنے ہوئے تھےتو جہادیوں نے اُس کی جرسی کو فوری طور پر اتروا دیا۔
مشرقی موصل کی بازیابی کے بعد کھیلے جانے والے پہلے فٹ بال میچ میں کھلاڑیوں کی مسرت اور میچ دیکھنے والے تماشائیوں کا جوش و خروش دیکھنے کے لائق تھا۔ مقامی کلبوں کے میچ کو دیکھنے والا ہجوم اچھے کھیل پر تالیاں بجاتا، جو پہلے ممنوع تھیں۔ ایک کھلاڑی لیث علی کے مطالبق وہ داعش کی نگرانی کے بغیر میچ کھیل رہے ہیں اور یہ بہت عمدہ ہے۔
موصل کے شہری بقیہ عراق سے بھی زیادہ فٹ بال کے دیوانے ہیں۔ داعش کی آمد سے قبل موصل فٹ بال کلب ملک کا بہترین کلب شمار کیا جاتا تھا۔ اِس کلب کا انتظامی دفتر مشرقی حصے میں ہے اور شہر کا مرکزی اسٹیڈیم مغربی حصے میں واقع ہے۔ نینوا صوبے کی حکومت کے مطابق موصل میں کم از کم ایک درجن کھیلنے کے میدان بحال کیے جا چکے ہیں۔ بحالی کے اس عمل میں موصل شہر میں ہر مہینے کے پہلے دن کو ’اسپورٹس ڈے‘ قرار دیا گیا ہے۔