جی ايچ کيو ميں طلبی کے بعد درانی کے بيرون ملک سفر پر پابندی
28 مئی 2018پاکستانی فوج نے اسد درانی کو ادارے کے ضابطہ اخلاق کی مبينہ خلاف ورزی کے سبب راولپنڈی ميں فوجی ہيڈ کوارٹر ميں آج بروز پير طلب کيا۔ بعد ازاں درانی کے خلاف تحقيقات کا حکم جاری کرتے ہوئے يہ بھی بتايا گيا کہ ان کا نام ’ايگزٹ کنٹرول لسٹ‘ ميں شامل کيا جا رہا ہے يعنی ان کے ملک سے باہر سفر کرنے پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ پاکستان ميں يہ پہلا موقع ہے کہ آئی ايس آئی کے کسی سابق سربراہ کے خلاف ايسا قدم اٹھايا گيا ہے۔
ريٹائرڈ ليفٹيننٹ جنرل اسد درانی کو ان کی حال ہی ميں جاری ہونے والی اُس کتاب کے سلسلے ميں طلب کيا گيا تھا، جس نے آج کل پاکستان ميں تہلکہ مچايا ہوا ہے۔ درانی کو طلب کرتے وقت فوجی حکام نے البتہ يہ واضح نہيں کيا کہ کتاب ميں لکھی کون سی باتوں پر انہيں احتجاج ہے يا کون سے انکشافات ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے زمرے ميں آتے ہيں۔
اسد درانی 1990ء سے 1992ء کے دوران آئی ايس آئی کے سربراہ رہے تھے۔ پچھلے ہفتے ان کی کتاب ’The Spy Chronicles: RAW, ISI and the Illusion of Peace‘ جاری ہوئی، جو انہوں نے روايتی حريف ملک بھارت کی خفيہ ايجنسی کے ايک سابق اہلکار اے ايس دولت کے ساتھ مل کر لکھی ہے۔ اس کتاب ميں متنازعہ کشمير اور افغانستان ميں پاکستان کے کردار کے حوالے سے کئی انکشافات کيے گئے ہيں۔ پاکستان ميں فوج پر کسی بھی قسم کی تنقيد کافی سنجيدہ معاملہ ہے۔ علاقائی سطح پر جاری ’پراکسی جنگوں‘ ميں پاکستانی فوج کے کردار پر سوال اٹھانا يا اس پر تنقيد تقريباً ناقابل برداشت سی بات ہے۔
ريٹائرڈ ليفٹيننٹ جنرل اسد درانی نے اپنی کتاب ميں لکھا ہے کہ اس بات کے امکانات ہيں کہ پاکستانی حکام القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی پاکستان ميں موجودگی کے بارے ميں آگاہ تھے اور يہ امکان بھی ہے کہ انہی نے يہ بات امريکی انٹيليجنس کو بتائی، جس کے نتيجے ميں سن 2011 ميں ايبٹ آباد ميں ايک امريکی آپريشن ميں بن لادن کو ہلاک کيا گيا۔
يہ تنازعہ ايک ايسے وقت پر منظر عام پر آيا ہے کہ جب کچھ روز قبل سابق وزير اعظم نواز شريف نے يہ کہہ کر ملک ميں ايک تہلکہ مچا ديا تھا کہ بھارتی شہر ممبئی ميں سن 2008 ميں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں ميں امکاناً پاکستانی جنگجو ملوث تھے۔ اس بيان کی نيشنل سکيورٹی کونسل نے باقاعد مذمت کی۔ شريف نے اب يہ کہا ہے کہ درانی کی کتاب ميں بيان کردہ معاملات پر بھی قومی سلامتی کی کونسل ميں بات کی جائے۔
ع س / ع ب، نيوز ايجنسياں