1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جی ٹوئنٹی کے دہلی اجلاس میں چینی وفد کا 'پراسرار‘ تھیلا

جاوید اختر، نئی دہلی
13 ستمبر 2023

جی ٹوئنٹی سمٹ میں شریک چینی وفد اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے مابین گزشتہ جمعرات کو قریب بارہ گھنٹے تک 'ڈرامہ‘ ہوتا رہا۔ بھارتی حکام وفد کے ایک 'غیر معمولی سائز‘ کے بیگ کی جانچ کرنا چاہتے تھے لیکن چینی اس پر تیار نہیں تھے۔

https://p.dw.com/p/4WH7r
بھارت اور چین کے درمیان عشروں سے سرحدی تنازعات جاری ہیں لیکن سن 2020ء کے بعد سے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں
بھارت اور چین کے درمیان عشروں سے سرحدی تنازعات جاری ہیں لیکن سن 2020ء کے بعد سے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے ہیںتصویر: Yann Tang/Zoonar/picture alliance

بھارتی میڈیا میں شائع شدہ خبروں کے مطابق نئی دہلی میں ہونے والے جی ٹوئنٹی کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے گزشتہ جمعرات کو جب چینی وفد نئی دہلی پہنچا اور اس نے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں چیک ان کیا تو وفد کے ارکان کے پاس ایک ''غیر معمولی سائز‘‘ کا تھیلا بھی تھا، جس نے شکوک و شبہات پیدا کر دیے تھے۔

ہوٹل کے عملے نے اگرچہ سفارتی سامان کے زمرے میں اس تھیلے کو کمرے میں لے جانے کی اجازت دے دی تھی تاہم ساتھ ہی اس نے اس بیگ میں ''مشتبہ آلات‘‘ کی موجودگی کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے اس کی اطلاع بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں کو بھی دے دی تھی۔ اس کے بعد ایک ایسا 'ڈرامہ‘ شروع ہو گیا، جو تقریباً 12 گھنٹے تک جاری رہا۔

معاملہ کیا تھا؟

چینی وفد نے نئی دہلی کے فائیو اسٹار ہوٹل تاج پیلس میں قیام کیا تھا۔ ہوٹل کے سکیورٹی عملے نے سفارتی پروٹوکول کا خیال رکھتے ہوئے چینی مہمانوں کو ان کے تمام بیگ اپنے ساتھ کمروں میں لے جانے کی اجازت دے دی تھی۔

'مودی اور شی باہمی تعلقات بحال کرنے پر متفق'، چین کا دعویٰ

ہوٹل اسٹاف کے ایک رکن نے بعد میں دیکھا تھا کہ چینی وفد کے ایک کمرے میں دو بیگوں میں ''کچھ مشتبہ آلات‘‘ رکھے ہوئے تھے۔ ہوٹل اسٹاف نے اس کی اطلاع بھارتی سکیورٹی حکام کو دے دی۔ اس پر سکیورٹی حکام نے چینی وفد سے ان تھیلوں کو اسکینر سے گزارنے کے لیے کہا لیکن وفد نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

چینی وفد کا اصرار تھا کہ یہ چونکہ سفارتی بیگج تھا، لہٰذا اس کی جانچ نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس پر بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ وفد کے ارکان کی تکرار بھی ہوئی۔

چینی وفد کے ارکان کے پاس ایک ''غیر معمولی سائز‘‘ کا تھیلا  تھا، جس نے شکوک و شبہات پیدا کر دیے
چینی وفد کے ارکان کے پاس ایک ''غیر معمولی سائز‘‘ کا تھیلا تھا، جس نے شکوک و شبہات پیدا کر دیے تصویر: Hindustan Times/IMAGO

معاملہ کیسے حل ہوا؟

چینی وفد کے انکار کی وجہ سے تعطل پیدا ہو گیا تھا۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق بعد میں چینی وفد صرف ایک شخص کو چھوڑ کر دیگر تمام اراکین کے بیگ  اسکین کروانے پر راضی ہو گیا، جس کی وجہ سے بھارتی سکیورٹی اہلکاروں کا شبہ اور بھی بڑھ گیا۔

چین کا 'معیاری نقشہ' اور اس کے خلاف بھارت کا شدید احتجاج

ان کے اس شبے کو اس وقت اور بھی تقویت ملی جب چینی وفد نے اپنے لیے ''علیحدہ اور پرائیویٹ انٹرنیٹ کنکشن‘‘ کا مطالبہ کر دیا۔ ہوٹل انتظامیہ نے تاہم یہ درخواست ٹھکرا دی، جس کے بعد بارہ گھنٹے تک چلنے والا ڈرامہ شروع ہو گیا۔

رپورٹوں کے مطابق ہوٹل کے کمرے کے باہر ایک سکیورٹی ٹیم تعینات کر دی گئی تھی، جو تقریباً 12گھنٹے تک پہرہ دیتی رہی اور یہ ڈرامہ اس وقت اپنے اختتام کو پہنچا جب کافی طویل بحث کے بعد وفد مذکورہ بیگ کو چینی سفارت خانے منتقل کرنے پر راضی ہو گیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس میں شی جن پنگ کی عدم شرکت بھارت اور چین کے درمیان کشیدہ تعلقات کا ایک اور ثبوت ہے
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس میں شی جن پنگ کی عدم شرکت بھارت اور چین کے درمیان کشیدہ تعلقات کا ایک اور ثبوت ہےتصویر: Kenzaburo Fukuhara/AP Photo/picture alliance

بھارت اور چین کے کشیدہ تعلقات

نئی دہلی میں نو اور دس ستمبر کو ہونے والے جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس میں گوکہ اس گروپ میں شامل تقریباً تمام ملکوں کے سربراہان مملکت و حکومت اور دیگر خصوصی مہمانوں نے شرکت کی لیکن روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ اس سمٹ میں شامل نہ ہوئے۔ شی جن پنگ نے اپنی جگہ چینی وزیر اعظم لی چیانگ کو نئی دہلی بھیجا تھا۔

مودی اور شی جن پنگ سرحدی 'تناو جلد از جلد کم' کرنے پر متفق

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شی جن پنگ کی عدم شرکت بھارت اور چین کے درمیان کشیدہ تعلقات کا ایک اور ثبوت ہے۔

حالانکہ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اسے بھارت کی سفارت کاری کی ناکامی ماننے سے انکار کر دیا اورکہا کہ ہر ملک کو خود فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ کس سطح پر اپنی نمائندگی کرے گا، اس لیے ''اہم یہ نہیں ہے کہ کسی ملک نے کیا موقف اختیار کیا، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ مباحث اور نتائج میں اس ملک کا حصہ کتنا رہا۔ اور اس کا اطلاق چین پر بھی ہوتا ہے۔‘‘

خیال رہے کہ یوں تو بھارت اور چین کے درمیان عشروں سے سرحدی تنازعات جاری ہیں لیکن سن 2020ء میں بھارتی اور چینی دستوں کے مابین لداخ میں ہونے والی پرتشدد جھڑپوں کے بعد سے دوطرفہ تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے تھے۔

دہلی میں جی 20 کی تیاریاں اور سخت ترین سکیورٹی