جیل میں قید جمہوریت نواز مصری کارکن کو برطانوی شہریت
12 اپریل 2022مصر کے جمہوریت نواز معروف کارکن اعلاء عبدالفتاح کے اہل خانہ نے 11 مارچ پیر کے روز بتایا کہ اب انہیں برطانوی شہریت دے دی گئی ہے۔ اعلاء عبدالفتاح کی شخصیت سن 2011 کے انقلاب کے دوران ان کی جمہوری کوششوں کے لیے ابھر کر سامنے آئی تھی۔
وہ گزشتہ ساڑھے تین برسوں سے جیل میں قید ہیں اور شہریت دینے کے اس اقدام کو مصری حکومت پر دباؤ ڈالنے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، تاکہ انہیں کسی طرح رہا کرایا جا سکے۔ انسانی حقوق کے کارکن کو جن سخت حالات میں برسوں سے سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا ہے، اس کے خلاف بطور احتجاج انہوں نے رمضان کے مقدس مہینے کے آغاز سے ہی بھوک ہڑتال بھی شروع کر رکھی ہے۔
عبدالفتاح کی بہنوں نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''گزشتہ ڈھائی برسوں سے انہیں ایک ایسی کوٹھری میں قیدرکھاگیا ہے جہاں سورج کی روشنی بھی نہیں پہنچتی ہے۔ اس کوٹھری میں نہ تو کتابیں ہیں، اور نہ ہی ورزش کا کوئی سامان موجود ہے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''گزشتہ بیس ماہ کے دوران ان کی ملاقاتیں خاندان کے فرد واحد تک محدود کر دی گئی ہیں۔ وہ بھی شیشے کے ذریعے، ایک لمحہ بھی بغیر رازداری کے ہوتی ہے اور رابطے کی بھی کوئی اجازت نہیں ہے۔''
اعلاء عبدالفتاح کون ہیں؟
عبدالفتاح نے گزشتہ 10 برس کا اپنا بیشتر حصہ جیل میں گزارا ہے۔ انہیں سابق صدر حسنی مبارک کے دور اقتدار میں بھی گرفتار کیا گیا تھا، جنہیں سن 2011 کے انقلاب میں معزول کر دیا گیا۔ اور پھر محمد مرسی کے دور میں بھی، جنہوں نے 2013 میں اپنی معزولی سے قبل مختصر مدت کے لیے بطور صدر کے اپنی خدمات انجام دیں تھیں۔
گزشتہ دسمبر میں ایک عدالت نے انہیں جھوٹی خبریں پھیلانے کا مجرم قرار دیتے ہوئے پانچ برس قید کی سزا سنا دی۔ اس کے علاوہ دوسرے کیسوں میں بھی 40 سالہ عبدالفتاح پر سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرنے اور دہشت گرد گروپ کا رکن ہونے جیسے الزامات عائد کیے گئے۔
ان کے اہل خانہ اور مصری وکلاء نے 2021 میں کہا تھا کہ قاہرہ کی تورا جیل میں عبدالفتاح کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔
ان کے خاندان کے ایک وکیل ڈینیئل فرنر نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا، ''وہ ایک برطانوی شہری ہیں جنہیں غیر قانونی طور پر، خوفناک حالات میں، محض پرامن اظہار رائے اور انجمن کے اپنے بنیادی حقوق کا استعمال کرنے کے لیے حراست میں رکھا گیا ہے۔''
رہائی کی امید
عبدالفتاح نے اپنی والدہ لیلیٰ سویف کے ذریعے برطانوی شہریت حاصل کی ہے، جو لندن میں پیدا ہوئی تھیں اور وہ قاہرہ یونیورسٹی میں ریاضی کی پروفیسر بھی ہیں۔
ان کی بہنوں مونا اور ثناء کو بھی برطانیہ کی شہریت دی گئی ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ان کے بھائی نے برطانیہ میں خاندان کے وکلاء سے بات کرنے کی درخواست کی ہے تاکہ وکلاء، ''نہ صرف ان کے خلاف ہونے والی زیادتیوں، بلکہ انسانیت کے خلاف ہونے والے تمام جرائم کے بارے میں ہر ممکن قانونی اقدامات کر سکیں، جو ان کے ساتھ دوران قید روا رکھے گئے۔''
صدر عبدالفتاح السیسی کی قیادت والی مصری حکومت نے حالیہ برسوں میں دوہری شہریت کے حامل متعدد سیاسی قیدیوں کو مصری شہریت ترک کرنے پر رضامندی کے بعد رہا کیا ہے۔ لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مصر میں تقریباً 60,000 سیاسی قیدی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)