جے پی نڈا حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے نئے صدر منتخب
20 جنوری 2020انسٹھ سالہ جے پی نڈا ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس کے پرانے کارکن ہیں۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ آر ایس ایس سے وابستہ ہو گئے تھے۔ وہ بی جے پی کے اعلی ترین فیصلہ ساز ادارہ پارلیمانی بورڈ کے ایک عرصے سے رکن ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی اور امیت شاہ کے انتہائی وفادار اور دست راست سمجھے جاتے ہیں۔
بی جے پی کے ناقدین کا خیال ہے کہ نڈا کو پارٹی صدر بنائے جانے سے پارٹی کے بنیادی نظریات اور کام کرنے کے طریقے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ بی جے پی کے سابق رہنما اور سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا، جو بی جے پی کی موجودہ قیادت پر اکثر نکتہ چینی کرتے رہتے ہیں، نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”مودی اور شاہ کی وجہ سے پارٹی میں بہت ساری بنیادی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ شاہ نے پارٹی میں ایک کارکن کی طرح کام کرنے کے بجائے ایک باس کی طرح کام کیا اور پارٹی کے کیریکٹر کو اندر اور باہر دونوں ہی جگہ بدل دیا اور یہ ایک کارپوریٹ کمپنی کی طرح بن کر رہ گئی ہے۔"
اس سوال پر کہ پارٹی پر امیت شاہ کا کنٹرول کیوں برقرار رہے گا؟ یشونت سنہا کا کہنا تھا، ”وہ (امیت شاہ) وزیر داخلہ کے عہدہ پر برقرار رہیں گے۔ یہ ایک بہت اہم عہدہ ہے۔ دیگر جماعتوں میں پارٹی کا صدر سب سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے لیکن بی جے پی میں وزیر اعظم اور وزراء سب سے زیادہ طاقت ور ہیں۔"
جے پی نڈا نے بی جے پی کی قیادت ایسے وقت میں سنبھالی ہے، جب مودی حکومت کے خلاف متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ گوکہ ملک اور بیرون ملک ہرجگہ حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت ہو رہی ہے اور حکمراں جماعت کی مظاہرین میں پھوٹ ڈالنے کی اب تک کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں، اس کے باوجود حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے بظاہر تیار دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ اگلے ماہ دہلی میں اور اسی سال بہار میں اسمبلی کے اہم انتخابات ہونے والے ہیں۔ پارٹی کے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی ناراضگی کو دور کرنا نڈا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ جھارکھنڈ اور مہاراشٹر میں اقتدار سے محروم کر دیے جانے کو بی جے پی کی عوامی مقبولیت میں کمی کے ایک ثبوت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق نریندر مودی اور امیت شاہ نے بی جے پی کو جس بلندی تک پہنچادیا ہے اسے برقرار رکھنا اور مزید آگے لے جانا بھی نڈا کے لیے اہم چیلنج ہوگا۔ انہیں ہندوتوا کے ایجنڈے کو نافذ کرنے کی کوشش میں آر ایس ایس کے توقعات پر بھی پورا اترنا ہو گا۔
بی جے پی کے ایک سینیئر رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ”امیت شاہ نے پارٹی کی ترقی کا جو خاکہ تیار کر دیا ہے نڈا اسی پر عمل کریں گے، البتہ ان کے کام کرنے کا انداز مختلف ہوسکتا ہے۔ نڈا سخت محنت کرنے والے، مستقل مزاج اور ہنس مکھ شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ اپنے آپ کو لوپروفائل میں رکھتے ہیں لیکن نظریاتی بنیاد پر پارٹی کی قیادت کی تمام ضروری صلاحیتیں ان میں موجود ہیں۔ البتہ لوگ امیت شاہ اور جے پی نڈا میں موازنہ تو کریں گے ہی۔ لیکن وزیر اعظم مودی اور امیت شاہ کی جوڑی نے پارٹی کو جن بلندیوں تک پہنچایا ہے، نڈا اس میں مزید تعاون کریں گے اور یہ ایک کامیاب مثلث ثابت ہوگی۔ جس میں مودی اپنے عوامی اپیل، امیت شاہ اپنے سخت فیصلوں اور نڈا تنظیمی امور پر اپنی گرفت سے پارٹی کو مزید کامیابیوں سے ہمکنار کرائیں گے۔ نڈا کی صدارت پارٹی کے لیے ایک اضافی اثاثہ ثابت ہو گا۔"
نڈا کو صدر بنانا اس لیے ضروری ہوگیا تھا کیوں کہ بی جے پی کے ضابطہ کے مطابق ایک شخص دو عہدوں پر فائز نہیں رہ سکتا۔ اس لیے جب امیت شاہ کو وزیر داخلہ کا قلمدان سونپا گیا تو انہوں نے وزیر اعظم سے پارٹی کی سربراہی سے سبکدوش کرنے کی درخواست کی تھی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا تاہم کہنا ہے کہ پارٹی کا سربراہ بن جانے کے باوجود بی جے پی کے تنظیمی ڈھانچے پر اصل کنٹرول امیت شاہ کا ہی رہے گا اور بی جے پی کو اب بھی امیت شاہ کی پارٹی ہی سمجھا جائے گا۔
نڈا کون ہیں؟
بنیادی طور پر ہماچل پردیش کے رہنے والے نڈا کی پیدائش بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں ہوئی، جہاں ان کے والدپٹنہ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ نڈا نے ابتدائی اور کالج کی تعلیم پٹنہ میں حاصل کی اور ہماچل پردیش یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی۔ وہ زمانہ طالب علمی میں ہی آر ایس ایس سے وابستہ ہوگئے تھے اور اس کے سیاسی ونگ بی جے پی کے لیے کام کرتے رہے۔ وہ سن1993 سے سن 2012 کے درمیان تین مرتبہ ہماچل پردیش اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور سن1998 سے سن 2003 اور پھر سن 2008 سے سن 2010 کے درمیان کابینہ میں بھی رہے۔ نڈا 2010 ء میں دہلی آئے اور بی جے پی مرکزی قیادت کے ساتھ کام شروع کیا۔ بی جے پی نے اپریل سن 2012 میں انہیں پارلیمان کے ایوان بالا کا رکن بنایا۔ 2014 ء میں مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد انہیں وزارت صحت کا قلمدان سونپا گیا۔ لیکن انہوں نے سب سے بڑی سیاسی چھلانگ جون 2019 ء میں لگائی جب انہیں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کا عبوری صدر مقرر کیا گیا۔
یہاں سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ نڈا کو پارٹی کا صدر بنانے کے باوجود بی جے پی میں طاقت کا کوئی نیا مرکز پیدا ہونے کا قطعی خطرہ نہیں ہے۔ اسٹوڈنٹس لیڈر سے لے کر مرکزی وزیر کے عہدہ تک طویل سیاسی کیریئر میں نڈا ہمیشہ خاموشی کے ساتھ اور غیر متنازعہ طورپر اپنا کام کرتے رہے ہیں۔