پردے پر طالبان کا حکم 'خواتین کو کام سے روکنے کے مترادف ہے'
10 مئی 2022سب سے کم عمر میں نوبل انعام سے سرفراز ہونے والی خواتین کے حقوق کی علمبردار ملالہ یوسف زئی نے طالبان کی جانب سے افغانستان میں خواتین کے لیے حجاب کو لازمی قرار دینے کے حکم کے بعد افغان خواتین اور لڑکیوں کے تئیں خوف کا اظہار کیا ہے۔
چند روز قبل ہی طالبان نے اپنے ایک نئے فرمان کے تحت افغانستان میں تمام خواتین کے لیے عوامی مقامات پر برقعہ پہننا لازمی قرار دیا تھا۔ تاہم ملک کے بڑے شہروں میں بیشتر خواتین اس فیصلے سے نالاں دکھائی دیتی ہیں۔
ملالہ یوسف زئی نے کیا کہا؟
نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے اس حوالے سے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا، ''طالبان چاہتے ہیں کہ وہ افغان لڑکیوں اور خواتین کو عوامی زندگی سے پوری طرح سے مٹا کر رکھ دیں۔''
انہوں نے مزید کہا کہ وہ، ''لڑکیوں کو اسکول سے باہر رکھنا اور خواتین کو کام سے دور رکھنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ انہیں خاندان کے کسی مرد کے بغیر سفر کرنے کی اجازت سے محروم کر دیا جائے اور وہ خواتین کو مکمل طور پر اپنے چہرے اور جسم ڈھانپنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔''
انہوں نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر طالبان کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے وہ اجتماعی کارروائی کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا، ''افغان خواتین کے لیے جو خطرات در پیش ہیں، ہمیں اس کے احساس کا پاس ہونا چاہیے، کیونکہ طالبان اب اپنے وعدوں کو توڑ رہے ہیں۔ اب بھی، بہت سی خواتین اپنے انسانی حقوق اور وقار کے لیے لڑنے کے لیے سڑکوں پر آ رہی ہیں۔ ہم سب کو، اور خاص طور پر مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین کو، ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔''
اپنی طویل ٹویٹ کے آخر میں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے، عالمی رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ، ''وہ طالبان کو لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر، انہیں جوابدہ ٹھہرانے کے لیے اجتماعی طور پر کارروائی کرنے کی کوشش کریں۔''
اقوام متحدہ کو بھی تشویش لاحق ہے
اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونیو گوٹیرش نے بھی طالبان کی جانب سے افغان خواتین کو سر سے پاؤں تک ڈھانپنے کے پابند بنانے کے حالیہ فیصلے کے بارے میں اتوار کے روز اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ انسانی حقوق کے گروپوں اور مبصرین کی جانب سے طالبان کے اس فیصلے پر شدید نکتہ چینی ہوئی ہے۔
برقعہ پہننے سے متعلق طالبان کے فیصلے کے اعلان کے ایک دن بعد ہی اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے کہا تھا کہ طالبان افغان خواتین کے انسانی حقوق کوایک ایک کرکے سلب کرتے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق طالبان کی طرف سے پورے جسم کے پردے کو لازمی قرار دینے کے حکم کے بعد ایک طرح سے خواتین کی تعلیم، نقل و حرکت، ملازمت اور عوامی زندگی پر بندشیں عائد ہو گئی ہیں۔
بیشتر بین الاقوامی برادری کی جانب سے طالبان کی قیادت والی حکومت کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا گیا ہے، جس نے خواتین کے انسانی حقوق اور دیگر حقوق کا احترام کرنے کا عہد کیا ہے۔
طالبان نے جب برقعے کو لازم قرار دیا تھا تو اس وقت کابل میں اقوام متحدہ کے مشن نے اس پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ خواتین اور لڑکیوں سمیت تمام افغانوں کے انسانی حقوق کے احترام اور تحفظ کے حوالے سے جو متعدد یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں، یہ اس سے متصادم ہے۔
پردے کے حوالے سے طالبان کا نیا فرمان کیا ہے؟
افغان طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوند زادہ کی جانب سے ہفتہ سات مئی کے روز ایک حکم نامہ جاری کیا گیا تھا، جس کے تحت ملک میں تمام خواتین کے لیے برقعہ پہننا لازمی ہے۔ اس کے مسودے کے تحت، 'عورتوں کو چادر اوڑھنی چاہیے، جو روایات کے مطابق ہے اور احترام کا تقاضہ کرتی ہے۔‘ اس حکم نامے میں مزید لکھا ہے، ''جو لڑکیاں کم عمر ہیں، انہیں آنکھوں کے سوا اپنا چہرہ مکمل طور پر ڈھکنا لازمی ہے، جیسا کہ شریعہ میں بیان کیا گیا ہے۔ یوں نامحرم مردوں سے ملتے وقت ان مردوں کے ذہنوں میں غلط خیالات نہیں آئیں گے۔"
طالبان کی متعلقہ وزارت نے حکم نامے کی تفصیلات بیان کرتے وقت کہا کہ اس پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں خواتین کے والد یا قریبی رشتہ دار کو پکڑا اور قید کیا جا سکتا ہے۔ اگر وہ سرکاری ملازمت کرتے ہیں، تو انہیں نوکری سے فارغ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ طالبان کی جانب سے عورتوں کے حوالے سے اب تک کا سخت ترین قدم ہے۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)