حجاب کے باعث مسترد ہونے والی ٹیچر کو عدالت سے انصاف مل گیا
10 فروری 2017یہ خاتون کئی برسوں سے برلن میں اسلامیات پڑھا رہی تھی اور اُس نے برلن کے ایک پرائمری اسکول میں ملازمت کے لیے درخواست دی تھی۔ اس مسلمان خاتون کو نظریاتی طور پر غیر جانبدار رہنے کے ایک صوبائی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ کام پر ہونے کے دوران اپنا ہیڈ اسکارف نہیں پہن سکتی اور یہ کہ ایسا کرنا اس قانون کی خلاف ورزی ہو گا۔
اب عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ برلن صوبے کی انتظامیہ پبلک اسکولوں میں ٹیچر کے طور پر درخواست دینے والے امیدواروں کو ہیڈ اسکارف پہننے کی بناء پر مسترد نہیں کر سکتی۔
اس ٹیچر نے جنوری 2015ء میں اپنے خلاف اور برلن کی صوبائی انتظامیہ کے حق میں آنے والے ایک فیصلے کے خلاف اپیل کر رکھی تھی۔ تازہ عدالتی فیصلے کے بعد زرِ تلافی کے طور پر اس خاتون ٹیچر کو اُس کی دو تنخواہوں کے برابر رقم دی جائے گی، جو آٹھ ہزار یورو سے زیادہ بنتی ہے۔ اس کے علاوہ مقدمے کے اخراجات کا کچھ حصہ بھی برلن کی انتظامیہ کو ادا کرنا ہو گا۔
اس ٹیچر کی وکیل مریم ہاشمی نے کہا:’’ہم نے سکھ کا سانس لیا ہے اور اس فیصلے سے بہت مطمئن ہیں۔‘‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ متعلقہ اسکول اس ٹیچر کو مذہبی آزادی کا حوالہ دے کر نظریاتی طور پر غیر جانبدار رہنے کے صوبائی قانون سے مستثنیٰ قرار دینے کا اختیار رکھتا تھا۔ عدالت کے مطابق صرف حجاب کی بناء پر اس خاتون کی درخواست کو رَد کرتے ہوئے اسکول نے امتیازی سلوک کے خلاف بنائے گئے ضوابط کو پامال کیا۔ عدالت کے مطابق برلن انتظامیہ کہ یہ ثابت کرنا تھا کہ حجاب کا پہننا اسکول میں امن کے لیے ایک خطرہ تھا، جو کہ وہ ثابت نہیں کر سکی۔
برلن انتظامیہ کی جانب سے اس ٹیچر کو حجاب کی بجائے سر پر ایک وِگ پہننے کی تجویز دی گئی تھی، جسے اس ٹیچر نے مسترد کر دیا۔
واضح رہے کہ جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت پہلے ہی دو بار یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ سرکاری شعبوں میں مسلمان خواتین کے ہیڈ اسکارف لینے پر پابندی غیر آئینی ہو گی۔