'حرکت المجاہدین کے شریک بانی کی پاکستان میں آزاد نقل و حرکت‘
29 مارچ 2018فضل الرحمن خلیل نے خبر رساں ادارے اے پی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں رواں برس کے آغاز میں سنی اور شیعہ مسالک کے علماء کی جانب سے دیے گئے اس متفقہ فتوے کو سراہا جس میں خود کش حملوں کو حرام قرار دیتے ہوئے شدت پسندوں کو ان سے باز رہنے کو کہا گیا تھا۔
خلیل کا کہنا ہے کہ یہ فتوی جاری کرنے والے اٹھارہ سو علماء میں وہ بھی شامل تھے۔ خلیل نے اپنے انٹرویو میں مزید کہا،’’ خود کش حملے، بم دھماکے اور بے قصور لوگوں کا قتل اسلامی شرعی قوانین کی رُو سے حرام ہیں۔ مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد اس حوالے سے متفق ہیں اور دہشت گردی کے خلاف ہیں۔‘‘
افغان حکومت نے اس فتوے پر تنقید کی تھی کیونکہ یہ صرف پاکستان کے لیے مخصوص تھا۔ خلیل کا کہنا تھا کہ صدر اشرف غنی کو اپنے ملک کے لیے ایسا فتوی چاہیے تو انہیں افغان مذہبی اسکالرز کو جمع کرنا چاہیے۔ خلیل نے مزید کہا،’’ اگر غنی اور افغان عوام ایسا چاہتے ہیں تو ہم اُن کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
فضل الرحمن خلیل جہادی گروپ حرکت المجاہدین کے شریک بانی بھی تھے۔ حرکت المجاہدین کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کے جنگجو بھارت، پاکستان اور افغانستان میں فعال تھے۔ اس گروپ پر بھارت کی جانب سے الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ اس کے ارکان بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث تھے۔ وقت کے ساتھ اس عسکریت پسند گروہ نے کئی نام تبدیل کیے ہیں اور آج کل مبینہ طور پر ’انصار الامہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تاہم پاکستانی حکام نے خلیل کو اسلام آباد کے مضافات میں اُن کے گھر میں تنہا چھوڑ رکھا ہے۔ گھر کے گیٹ کے باہر ہمہ وقت ایک گارڈ اپنی آٹو میٹک رائفل کے ساتھ چوکس کھڑا رہتا ہے۔ یہیں ایک قریبی اور رش والی مارکیٹ میں خلیل ’ خالد بن ولید‘ کے نام سے ایک مدرسہ بھی چلا رہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے سن 2014 میں کہا تھا کہ خلیل کا شدت پسند گروپ اب بھی مشرقی افغانستان میں تربیتی کیمپ چلا رہا ہے۔ سن 2016 میں بھارتی سکیورٹی فورسز نے کہا تھا کہ اُنہوں نے اپنی طرف کے متنازعہ کشمیر میں حرکت المجاہدین گروپ کے پانچ ارکان گرفتار کیے تھے جو اعلیٰ بھارتی اہلکاروں کو ہدف بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
خلیل نے پاکستان پر اس امریکی تنقید کو مسترد کر دیا ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ پاکستان نے عسکریت پسندوں کو آزادانہ گھومنے کی چھوٹ دے رکھی ہے۔
خلیل نے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ خواہ امریکا پسند کرے یا نہ کرے مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں پاکستانی ہوں اور ہمارے پاس عدالتیں ہیں۔ ہم امریکی غلام نہیں ہیں۔‘‘