حریری حکومت کو اعتماد کا ووٹ مل گیا
11 دسمبر 2009حریری کی تیس رکنی کابینہ کو ایک سو اٹھائیس رکنی ایوان میں ایک سو بائیس ووٹ ملے۔ اس سے قبل پارلیمان میں کابینہ کے پالیسی بیان پر تین دن تک بحث ہوئی۔ اس بحث میں زیادہ بات عسکری جماعت حزب للہ کے پاس اسلحہ کی موجودگی کے معاملے پر ہوئی۔
اعتماد کا ووٹ ملنے کے بعد، لبنان کے وزیراعظم سعد حریری جلد ہی پڑوسی ملک شام کے دورے پر روانہ ہوں گے، جسے شدت پسند تنظیم حزب للہ کا حمایتی تصور کیا جاتا ہے۔ شام کے صدر بشار الاسد کے ساتھ حریری کی ملاقات کو دوطرفہ تعلقات کے تناظر میں خاصی اہمیت دی جارہی ہے۔ شام پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ چار سال قبل سعد حریری کے والد اور لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق حریری کے قتل میں ملوث ہے۔ تاہم شام اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔
اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے سے قبل سعد حریری کا کہنا تھا کہ وہ مستقبل میں شام کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں، جن میں دونوں ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کریں۔
لبنان میں جون منعقدہ انتخابات کے پانچ ماہ بعد تک عملی طور پر کوئی حکومت موجود نہیں تھی۔ طویل عرصے تک سیاسی فضا بحرانی کیفیت سے ہمکنار رہی۔ انتخابات میں امریکہ اور سعودی عرب کے حمایت یافتہ سعد حریری کے سیاسی اتحاد نے ایران اور شام کی حمایت یافتہ عسکری جماعت حزب للہ اور اس کے حلیفوں کے اتحاد کو شکست دی تھی۔ ایسے میں سعودی عرب اور شام نے لبنان کی متحارب سیاسی قوتوں کے درمیان مصالحت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔
مفاہمت کے بعد تیس رکنی لبنانی کابینہ تشکیل دی گئی، جس میں پندرہ نشستیں حریری کے اتحادیوں کو، دس حز ب للہ اور ان کے حلیفوں کو جبکہ پانچ صدر میشائل سلیمان کی جماعت کو ملیں۔ حریری کی حکومت میں بھی دونوں دھڑوں کے درمیان وزارتوں کی تقسیم اور دیگر امور پر اختلافات رہے۔ تاہم مفاہمی کوششوں کے بعد گزشتہ ایک ماہ سے صورتحال قدرے مستحکم ہوگئی ہے۔
حزب للہ کو لبنان کے اندر ایک مزاحمتی تنظیم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ تنظیم تین سال قبل اسرائیل کے ساتھ ایک جنگ بھی لڑ چکی ہے۔ حریری کی کابینہ میں حزب للہ کے دو وزراء شامل ہیں۔ اپنے اسلحہ کے ذخائر کے بارے میں البتہ حز ب للہ کھلی بحث کی مخالفت کرتی ہے۔ اس کا موقف ہے کہ ممکنہ اسرائیلی جارحیت سے نمٹنے کے لئے اسلحہ رکھنا بہت ضروری ہے۔
اسرائیل نے بائیس سال تک لبنان کے جنوبی حصے پر قابض رہنے کے بعد سال دوہزار دو میں اپنے قبضے کا خاتمہ کیا تھا۔
رپورٹ: خبر رساں ادارے/شادی خان سیف
ادارت: گوہر نذیر گیلانی