حسین ترین خواجہ سرا، اسرائیل میں انوکھا مقابلہ
اسرائیل میں گیارہ خواجہ سراؤں نے اپنے خلاف نسلی امتیاز کو نمایاں کرنے اور ملکہٴ حسن کے تاج کے لیے اپنی نوعیت کے پہلے مقابلہٴ حسن میں حصہ لیا۔ عرب مسیحی تالین ابو شانا کو ملک کا حسین ترین خواجہ سرا منتخب کر لیا گیا۔
ان میں سے ہر ایک ملکہٴ حسن ہے
یہ مقابلہ تل ابیب میں اسرائیلی نیشنل تھیٹر میں ہوا۔ ملکہٴ حسن کا تاج تالین ابو شانا کے سر پر سجا، جس نے اپنے تاثرات میں کہا:’’یہ تاج اتنا اہم نہیں ہے۔ ہمیں کسی کی ضرورت نہیں، جو ہمیں یہ بتائے کہ کون زیادہ حسین ہے، ہم میں سے ہر ایک ملکہٴ حسن ہے۔‘‘ اس فاتح خواجہ سرا کو تھائی لینڈ میں زیادہ خوبصورت بننے کے آپریشنز کے لیے تقریباً ساڑھے تیرہ ہزار یورو کے برابر رقم ملے گی۔
بین الاقوامی اسٹیج پر
تالین ابوشانا کا تعلق الناصرہ سے ہے۔ وہ مسیحی ہے اور اس کا تعلق ایک عرب خاندان سے ہے۔ یوں خواجہ سرا کے طور پر اُسے دوہرے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اکیس سالہ بیلے رقاصہ تالین اب اسپین کے شہر بارسلونا میں ’مِس ٹرانس سٹار‘ کے نام سے ہونے والے خواجہ سراؤں کے بین الاقوامی مقابلہٴ حسن میں شرکت کرے گی۔
تبدیلی کے لیے کوشاں خواتین
یہ مقابلہٴ حسن تل ابیب میں خواجہ سراؤں، ہم جنس پرست مردوں اور ہم جنس پرست عورتوں کے سالانہ جشن کا نقطہٴ آغاز تھا۔ یہ اسرائیلی شہر اس طرح کے مرد و زن اور مخنث افراد کے ایک گڑھ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سال کی تقریبات کو ’ویمن فار اے چینج‘ یعنی ’تبدیلی کے لیے کوشاں خواتین‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔
مختلف جنسی میلانات کے حامل افراد حقوق کے طالب
’مِس ٹرانس‘ نامی اس مقابلہٴ حسن کی داغ بیل اسرائیلا اسٹیفانی لیو نے ڈالی ہے۔ وہ خود بھی ایک خواجہ سرا ہے اور اُسے امید ہے کہ اس مقابلے کے ذریعے لوگ خواجہ سراؤں اور مختلف جنسی میلانات کے حامل افراد کے حالات کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکیں گے:’’ہم مساوی حقوق کے حامل افراد کے درمیان مساوی حقوق چاہتے ہیں‘‘۔ انعامات تقسیم ہونے لگے تو لیو نے چِلاّ کر کہا:’’یہ خواجہ سرا کمیونٹی کی آزادی ہے۔‘‘
مختصر ملبوسات، طویل داستانیں
اس شام کے مقابلے میں شریک خواجہ سرا ایک طویل سفر طے کر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔ یہ سب پہلے لڑکے تھے لیکن چونکہ اُن کے میلانات مختلف تھے، اس لیے انہوں نے تبدیلیٴ جنس کا آپریشن کروا لیا۔ اسرائیل ہی نہیں بلکہ دنیا میں ہر جگہ خواجہ سرا کمیونٹی کے ارکان کو نفرت اور امتیازی سلوک کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
بڑے شہر میں آ کر پناہ لی
اس تصویر میں آئلین بن زیکن میک اپ کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ اُسے ’مِس فوٹوجینک‘ کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اُس کا تعلق یروشلم کے ایک انتہائی قدامت پسند گھرانے سے ہے۔ بیکری مصنوعات کی ماہر آئلین بتاتی ہے کہ کیسے اُس کے پاس پڑوس کے لوگ اُسے حقارت سے دیکھا کرتے تھے:’’مجھے بار بار گالیاں دی جاتی تھیں، حتیٰ کہ میں تنگ آ کر تل ابیب آ گئی۔‘‘ اب وہ صرف اپنی ماں کے ساتھ رابطے میں ہے۔
گھر والوں کی بھی نفرت کا نشانہ
اس مقابلے میں شریک دیگر خواجہ سراؤں کی کہانی بھی مختلف نہیں ہے۔ زیادہ تر خواجہ سراؤں کے گھر والے پہلے اُن کے اپنی اصل شناخت کے سفر کو اور پھر اُن کے تبدیلیٴ جنس کے آپریشنز کو رَد کرتے ہیں۔ ان میں سے متعدد ایسے ہیں، جن کا اپنے گھر والوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔
دانشمندی کا راستہ
آیا اس مقابلے سے خواجہ سراؤں کی جانب لوگوں کی سوچ میں کوئی تبدیلی آئے گی، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ اسرائیلی اخبار ’ہاریٹس‘ لکھتا ہے:’’ایک ایسی حقیقی صورتِ حال میں، جہاں خواجہ سرا کمیونٹی کی یہ خواتین معاشرے میں اپنے جائز حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں، مِس ٹرانس 2016ء کا مقابلہ دانشمندی کے راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘