حقانی قبیلہ، فیک نیوز اور خان صاحب
16 ستمبر 2021اکثر پاکستانیوں کا جواب کسی اخبار میں قابل اشاعت ہو گا، نہ ہی کسی ٹی وی چینل پر نشر کیا جا سکتا ہے البتہ سوشل میڈیا پر یہ جواب دیکھا جا سکتا ہے اور اسی لیے آج کل پاکستان کے ارباب اختیار ’’فیک نیوز‘‘ کا سدباب کرنے میں مصروف ہیں۔
وہ عمران خان، جو کبھی پاکستانی میڈیا کی آنکھ کا تارہ تھے، آج کل وہی میڈیا عمران خان کی حکومت سے اپنی بچی کُھچی آزادی کے تحفظ کی کوششوں میں ہے۔ وہ عمران خان، جو اپوزیشن میں آزادی صحافت کے بہت بڑے علمبردار تھے، وزیر اعظم بننے کے بعد انہیں صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز آزادی صحافت کا ایک دشمن قرار دے چکی ہے۔ وہ عمران خان، جو اپوزیشن دور میں ہمیں اس لیے اچھے لگتے تھے کہ وہ ہمارے ٹی وی شوز میں لائیو انٹرویو کے لیے تیار رہتے تھے اور لائیو انٹرویو کے بعد اکثر کہتے تھے کہ’’سچ سچ بتاؤ کہ کیا نواز شریف یا آصف علی زرداری تمہارے لائیو شو میں آنے کے لیے تیار ہیں؟‘‘ اور میں لا جواب ہو جاتا تھا۔
وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان اکثر ریکارڈڈ انٹرویو دیتے ہیں۔ بدھ کی شام امریکی ٹی وی چینل سی این این کا ایک ایسا ہی ریکارڈڈ انٹرویو نشر ہوا، جس میں بیکی اینڈرسن خاصے جارحانہ سوال کر رہی تھی اور اپنے خان صاحب کا انداز دفاعی تھا۔ جب بیکی اینڈرسن نے حقانی نیٹ ورک کے بارے میں ایک سوال کیا تو مجھے لگا کہ خان صاحب کو فل ٹاس مل گئی ہے اور اب وہ چھکا لگائیں گے کیوں کہ امریکوں نے گزشتہ سال دوحہ معاہدے میں ایسی کوئی شق نہیں رکھی تھی کہ طالبان سراج حقانی یا خلیل حقانی کو اپنی حکومت میں شامل نہیں کریں گے۔
خلاف توقع عمران خان نے بیکی اینڈرسن سے کہا کہ حقانی دراصل افغانستان کا ایک پشتون قبیلہ ہے۔ یہ سن کر میں حیران رہ گیا۔ کچھ دیر پہلے اسی انٹرویو میں عمران خان نے امریکی صدر اور وزیر خارجہ کو افغانستان کے بارے میں لاعلمی اور جہالت کا طعنہ دیا تھا اور اب وہی طعنہ ان پر صادق آ رہا تھا۔ واضح رہے کہ کچھ لوگوں نے عمران خان پر ''فیک نیوز‘‘ پھیلانے کا الزام لگایا لیکن میں محتاط ترین الفاظ میں یہ کہوں گا کہ انہوں نے لاعلمی کا مظاہرہ کیا۔ بیکی اینڈرسن ایک منجھی ہوئی صحافی ہیں لیکن انہوں نے بھی عمران خان کے اس دعوے پر خاموشی اختیار کی کہ حقانی کوئی پشتون قبیلہ ہے، ان کی بھی تیاری مکمل نہ تھی۔
حقانی نیٹ ورک دراصل جلال الدین حقانی سے منسوب ہے۔ جلال الدین حقانی کا تعلق افغانستان کے زدران قبیلے سے تھا اور انہوں نے 1979ء سے 1989ء کے دوران روسی فوج کو مشرقی افغانستان میں ناکوں چنے چبوائے۔ وہ اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ کے فارغ التحصیل تھے۔ اس لیے اپنے نام کے ساتھ حقانی لکھتے تھے۔ جلال الدین حقانی ایک زمانے میں امریکی میڈیا کے ہیرو تھے۔ لیکن جب ان کے بیٹوں نے افغانستان میں امریکی فوج کے خلاف مزاحمت شروع کر دی تو حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے انس حقانی بھارتی میڈیا پر واضح کر چکے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ وہ سب امارات اسلامیہ کا حصہ ہیں۔ عمران خان یہ جواب بھی دے سکتے تھے کہ اگر سب حقانی دہشت گرد ہیں تو حسین حقانی امریکا میں کیا کر رہے ہیں؟
شاید وہ حسین حقانی کا نام اپنی زبان پر نہیں لانا چاہتے تھے۔ بقول حسین حقانی ان کے خاندان کا تعلق دہلی سے ہے اور وہ مولانا عبدالحق حقانی مفسر دہلوی کی اولاد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے بانی اور مولانا سمیع الحق ان کے پردادا کے شاگرد تھے اور اسی لیے انہوں نے اپنے مدرسے کا نام حقانیہ رکھا تھا۔ بہرحال ایسے بہت سے حقانی ہیں، جو نہ پشتون ہیں، نہ افغان ہیں اور نہ ہی دارالعلوم حقانیہ سے فارغ التحصیل ہیں اور پھر بھی حقانی کہلاتے ہیں۔ ان میں سے ایک معروف نام ہمارے محترم بزرگ کالم نویس جناب ارشاد احمد حقانی مرحوم کا ہے، جو قصور سے تعلق رکھتے تھے اور پنجابی تھے۔ حقانیوں کو افغانستان کا پشتون قبیلہ قرار دینا ایک انسانی غلطی ہے لیکن موجودہ صورتحال میں وزیراعظم پاکستان کی طرف سے ایسی چھوٹی سی غلطی
نہیں ہونی چاہیے اور غلطیوں سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سی این این جیسے ادارے کو انٹرویو دینے سے پہلے کچھ تیاری کر لی جاتی یا پھر ضرورت سے زیادہ بولنے سے احتراز کیا جاتا۔
اس انٹرویو میں عمران خان نے یہ درست کہا کہ ہم امریکا کے لیے کرائے کے جنگجو بنے رہے، امریکیوں کو افغانستان کے زمینی حقائق کا پتا نہیں ہے، اس لیے طالبان کو کچھ مہلت دی جائے۔ عمران خان کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ جس اقوام متحدہ نے حقانیوں کو بلیک لسٹ کر رکھا ہے، اسی اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ڈیبورا اینڈرسن نے سراج حقانی کے ساتھ ملاقات کر کے یہ اشارہ دیا کہ وہ ان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان بڑے شائستہ لہجے میں بیکی اینڈرسن کو بتا سکتے تھے کہ اقوام متحدہ کو حقانیوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، آپ بھی کچھ وقت دیں۔
سی این این پر عمران خان کے انٹرویو سے یہ تاثر ملا کہ وہ پاکستان میں اپوزیشن اور میڈیا کے علاوہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ لڑتے لڑتے اور اپنی طاقت کے کامیاب مظاہروں کے بعد ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہیں۔ پاکستان کو خارجہ محاذ پر جن چیلنجز کا سامنا ہے، عمران خان ان کو بہت ہلکا لے رہے ہیں۔ قومی سلامتی کے معاملات پر انہیں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر ایک متفقہ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے لیکن وہ پارٹی کا ہنگامی اجلاس بلا کر یہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں تحریک انصاف لاہور اور راولپنڈی میں کیوں ہار گئی؟ ان کے وزراء الیکشن کمیشن پر حملہ آور ہیں اور الیکشن کمیشن وزراء کو نوٹس دے رہا ہے۔ حکومت کی ترجیحات دنیا کے سامنے ہیں۔
بہت سے پاکستانی کہتے ہیں کہ افغانستان میں امریکا کی شکست کے بعد امریکا کوئی سُپر پاور نہیں رہا۔ افغانستان سے امریکا نے، جس افراتفری میں انخلاء کیا، اس پر امریکا میں بھی بڑی بحث ہو رہی ہے اور بائیڈن انتظامیہ دباؤ میں نظر آتی ہے۔ اسی لیے امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کا عندیہ دیا ہے۔ ہمیں یہ خاطر جمع رکھنی چاہیےکہ افغانستان میں شکست کا داغ مٹانے کے لیے امریکا کو اب کوئی موقع چاہیے۔ امریکا یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گا کہ وہ بدستور ایک سُپر پاور ہے۔ امریکا کو یہ موقع نہ دیا جائے کہ وہ پاکستان کو کسی ناکردہ گناہ کی سزا دے۔ ہمیں نہ تو امریکا کے سامنے گڑگڑانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی گھبرانے کی لیکن اندرونی اور بیرونی خطرات کے مقابلے کے لیے قومی سلامتی کے معاملات پر متفقہ پالیسی بنانی چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے، جب یہ پالیسی پارلیمنٹ بنائے گی۔
بیکی اینڈرسن نے عمران خان سے پوچھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا نان نیٹو اتحادی ہے لیکن امریکی صدر کے پاس آپ کو ایک فون کال کرنے کا وقت نہیں۔ خان صاحب نے جواب میں کہا کہ امریکی صدر بہت مصروف ہیں۔ شاید انہیں ابھی تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ ان کے اس دعوے پر حیران رہ گئی تھی کہ امریکا نے پاکستان سے فوجی اڈے مانگے تھے اور ہم نے انکار کر دیا تھا۔ واشنگٹن میں اعلیٰ سطحی ذرائع کہتے ہیں کہ انہوں نے تو اڈے مانگے ہی نہیں تھے تو پھر انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کسی نے خان صاحب کو ’’فیک نیوز‘‘ پہنچائی اور انہوں نے میڈیا پر ’’فیک نیوز‘‘ پھیلا دی۔ بہتر ہو گا کہ وہ اس معاملے کی وضاحت کر دیں تو شاید صدر بائیڈن شکریہ کا فون کر دیں۔