1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حماس کو دہشت گرد قرار دینے کا مصری عدالتی فیصلہ منسوخ

مقبول ملک6 جون 2015

مصر کی ایک عدالت نے فلسطینی تحریک حماس کے بارے میں ایک اور ملکی عدالت کا وہ فیصلہ منسوخ کر دیا ہے، جس میں حماس کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کا نام بلیک لسٹ تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1Fcdl
تصویر: Reuters/M. Salem

مصری دارالحکومت قاہرہ سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں عدالتی ذرائع کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ماضی میں حماس کے بارے میں ایک مصری ٹریبیونل کے فیصلے کو آج ہفتہ چھ جون کے روز اس لیے منسوخ کر دیا گیا کہ متعلقہ عدالت کو یہ اختیار ہی نہیں تھا کہ وہ اس قسم کے فیصلے سنا سکے۔

حماس کے خلاف گزشتہ فیصلہ اس سال فروری میں ایک مصری وکیل کی درخواست پر سنایا گیا تھا۔ تب اس وکیل نے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ عسکریت پسند فلسطینی تنظیم بہت سی زیر زمین سرنگوں کے ذریعے مصر میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ میں ملوث تھی اور عدالت نے اپنے فیصلے میں حماس کو دہشت گرد قرار دے کر اس کا نام ممنوعہ تنظیموں کی فہرست میں شامل کیے جانے کا حکم سنا دیا تھا۔

چند ماہ پہلے کے اس عدالتی فیصلے کا مصری حکام اور حماس کے مابین تعلقات پر انتہائی برا اثر پڑا تھا۔ مارچ میں قاہرہ حکومت نے ایک اعلٰی عدالت میں یہ اپیل دائر کر دی تھی کہ حماس کے خلاف فیصلہ منسوخ کیا جائے۔ اب اس عدالت نے اپنا فیصلہ قاہرہ حکومت کے حق میں سناتے ہوئے حماس کو دہشت گرد قرار دینے کا گزشتہ فیصلہ منسوخ کر دیا ہے۔

اسی سال جنوری میں مصر کی ایک عدالت نے پہلے حماس کے عسکری بازو عزالدین القاسم بریگیڈ کو باقاعدہ طور پر ایک ’دہشت گرد گروپ‘ قرار دے دیا تھا۔ پھر فروری میں جب حماس کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا گیا تو حماس کی قیادت کی طرف سے اس کی بھرپور مذمت کی گئی تھی۔ اب آج کے عدالتی فیصلے پر حماس کی طرف سے ایک مختصر بیان میں کہا گیا ہے، ’’حماس اس فیصلے کا خیرمقدم کرتی ہے۔ نئے عدالتی فیصلے نے گ‍زشتہ غلط فیصلے کی تصحیح کر دی ہے۔‘‘

Hamas Mitglieder Parade in Gaza 12.12.2014
اسی سال جنوری میں مصر کی ایک عدالت نے حماس کے عسکری بازو عزالدین القاسم بریگیڈ کو باقاعدہ طور پر ایک ’دہشت گرد گروپ‘ قرار دے دیا تھاتصویر: Reuters/I. Abu Mustafa

مشرق وسطٰی میں مصر روایتی طور پر اسرائیل اور حماس کے مابین ثالث کا کردار ادا کرتا آیا ہے۔ اسی لیے قاہرہ حکومت نے اس سال مارچ میں حماس کے دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کے خلاف عدالتی اپیل دائر کی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ اسرائیل اور حماس کے مابین ثالثی کوششوں کے لیے مصر کا کردار متنازعہ یا جانبدار نہ ہونے پائے اور وہ خلیج مزید گہری نہ ہو جو مصر میں 2013ء میں اسلام پسند صدر محمد مرسی کا تختہ الٹے جانے کے بعد قاہرہ اور حماس کے درمیان پیدا ہو گئی تھی۔

حماس اور مصر کے آپس کے تعلقات کا یہ پس منظر بھی بہت اہم ہے کہ محمد مرسی کا تختہ ملکی فوج کے سربراہ عبدالفتاح السیسی نے الٹا تھا، جو اس وقت مصر کے منتخب صدر ہیں۔ پھر مرسی کی سیاسی جماعت اور ان کی نظریاتی سرپرست اسلام پسند تحریک اخوان المسلمون پر بھی مصر میں پابندی لگا کر اسے دہشت گرد قرار دے دیا گیا تھا حالانکہ حماس تحریک بھی اخوان المسلمون ہی کا حصہ ہے۔

مصری حکام کا الزام ہے کہ حماس تحریک ان جہادیوں کی پشت پناہی کرتی ہے، جو جزیرہ نما سینائی میں مصری سکیورٹی فورسز پر حملے کرتے ہیں۔ جغرافیائی طور پر سینائی کی سرحدیں غزہ پٹی کے اس فلسطینی علاقے سے ملتی ہیں، جہاں حماس کی حکومت ہے۔ اس کے علاوہ مارچ 2014ء میں مصر نے اپنی سرزمین پر حماس کی ہر قسم کی سرگرمیوں کو ممنوع قرار دیتے ہوئے مصر میں اس تحریک کے تمام اثاثے بھی منجمد کر دیے تھے۔