یورپی رہنما غزہ میں فائر بندی کے مطالبے پر تقسیم کا شکار
13 نومبر 2023یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزیپ بوریل نے آج پیر کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ یورپی بلاک نے اسرائیل سے بھی کہا ہے کہ وہ ''حملوں سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کرے تاکہ انسانی جانوں کے نقصان سے بچا جا سکے۔‘‘ یورپی یونین کے وزراء خارجہ کے اجلاس میں بوریل نے تمام 27 ممالک کی جانب سے بھرپور اور زور دار انداز میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہاسرائیل اور حماس کی جنگ کے حل کے بارے میں یورپی یونین کی طرف سے کئی ہفتوں کے متضاد بیانات کے بعد آخر کار اب ایک مشترکہ بیان جاری کیا جا رہا ہے۔
جوزیپ بوریل نے کہا،''آپ جانتے ہیں کہ آخری بار اقوام متحدہ میں اس بارے میں ہونے والی ووٹنگ میں مختلف ممالک کی طرف سے کتنی مختلف آرا سامنے آئیں اور کسی مشترکہ فیصلے تک پہنچنا کتنا مشکل عمل تھا۔ اقوام متحدہ میں مختلف ممالک نے بالکل مختلف طریقوں سے ووٹ دیے اور ایک متفقہ نقطہ نظر پیش کرنا ممکن نہیں نظر آ رہا تھا۔‘‘
واضح رہے کہ 28 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے چند گھنٹوں پہلے یورپی یونین کے رہنماؤں نے اسرائیل اور حماس کی جنگ کے حوالے سے متحد ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اسرائیل اور حماس کے درمیان دشمنی کے خاتمے کے لیے امن فوج طلب کرنے کی قرارداد پر ووٹنگ میں یورپی یونین کے رکن ممالک مکمل طور پر منقسم ہو گئے تھے۔
اب یورپی یونین کے ممالک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ''مشرق وسطیٰ میں جاری لڑائی میں فوری وقفے اور غزہ کی آبادی تک انسانی امداد پہنچانے کو یقینی بنانے کے لیے کوریڈورز، بشمول سرحدی گزرگاہوں اور سمندری راستوں کی فراہمی کے مطالبات کا اعادہ کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یورپی رہنماؤں نے حماس کے قبضے میں تمام یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کو یرغمالیوں تک رسائی دی جائے۔‘‘
اس بیان میں مزید کہا گیا،''یورپی یونین حماس کی جانب سے ہسپتالوں اور شہریوں کو بطور انسانی ڈھال استعمال کرنے کے عمل کی سخت مذمت کرتی ہے۔‘‘ یورپی یونین کے ان مشترکہ بیانات اور متفقہ مطالبات کے سامنے آنے کے بعد بہت سی اقوام کی طرف سے جنگ بندی کا مطالبہ روک لیا گیا ہے۔
دریں اثناء جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے اس بارے میں اپنے بیان میں کہا کہ انہیں فائر بندی کی ضرورت کا احساس ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ جو لوگ جنگ بندی کے خواہاں ہیں انہیں چند سوالوں کے جواب دینا چاہیے۔ مثال کے طور پر یہ کہ '' کیا موجودہ خوفناک صورتحال میں اسرائیل کے وجود کی ضمانت اور اس کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے؟ کیا اسرائیلی سکیورٹی کی ضمانت دی جا سکتی ہے اور یہ کہ حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے 200 سے زائد یرغمالیوں کے ساتھ کیا ہوگا؟‘‘
جرمن وزیر کے بقول، "اس سلسلے میں مذاکرات کون کرے گا جبکہ مذاکرات کسی صورت ممکن نظر نہیں آ رہے؟"
ک م/ ش ر(اے ایف پی، ای اے پی)