حملے دہشت گرد تنظیموں کی ترغیب کا نتیجہ، کینیڈین حکام
24 اکتوبر 2014کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا میں فوجیوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کرنے والے اور کیوبک میں ایک کار کے ذریعے کچلنے کے واقعے میں ملوث افراد کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ ان دونوں شدت پسندوں نے حال ہی میں اسلام قبول کیا تھا، جب کہ انہوں نے ان حملوں کے حوالے سے اسلامی دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ کی ہدایات پر عمل کیا۔
بدھ کے روز کینیڈا میں ایک مسلح حملہ آور نے ایک فوجی کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے بعد پارلیمان پر حملہ کر دیا تھا۔ اس سے دو روز قبل ایک اور مشتبہ شدت پسند نے کیوبک کے علاقے میں دو فوجیوں پر اپنی کار چڑھا دی تھی، جن میں سے ایک ہلاک جب کہ دوسرا زخمی ہو گیا۔
جمعرات کے روز کینیڈا کے وزیراعظم اسٹیفن ہارپر نے رواں ہفتے ہونے والے ان دونوں واقعات کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ان میں ملوث دونوں افراد کینیڈا کے شہری تھے۔
ہارپر کا مزید کہنا تھا کہ ملک کے سکیورٹی قوانین میں سختی کی ضرورت ہے۔ ہارپر کے مطابق اس حوالے سے قوانین پر نظرثانی کا کام جاری ہے اور جلد ہی اس سلسلے میں اقدامات کیے جائیں گے۔
پولیس کمشنر باب پاؤلسن کے مطابق بدھ کے روز ملکی پارلیمان پر حملے کا ملزم مائیکل زیہف بیبیاؤ شام جانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ اس ملزم کو سکیورٹی فورسز نے ’ہائی رسک ٹریولر‘ یا ’انتہائی خطرناک مسافر‘ قرار دے رکھا تھا۔ پاؤلسن نے بتایا کہ یہ ملزم اکتوبر کے ماہ میں شام کے سفر کی تیاری ہی کے سلسلے میں اپنے پاسپورٹ کے ایک مسئلے کے وجہ سے دارالحکومت اوٹاوا پہنچا تھا، تاہم یہ مسئلہ حل نہ ہو سکا۔
پولیس کمشنر نے یہ بھی بتایا کہ اوٹاوا حملے اور اس سے دو روز قبل کیوبک کے علاقے میں کار کے ذریعے فوجیوں کو کچلنے والے حملہ آورکے درمیان کسی باہمی ربط کا سراغ نہیں ملا ہے۔
حکام نے تاہم ان دونوں حملوں کے محرکات کو دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی کئی برسوں سے جاری ترغیب پر عمل پیرا ہونا بتایا ہے، جو وہ اپنے مضامین، تحریری مواد اور آن لائن جاری کی جانے والی ویڈیو کے ذریعے دے رہی ہے۔ اس مہم میں القاعدہ شدت پسندوں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ رضاکارانہ اور اپنے طور پر بغیر براہ راست ہدایات یا تربیت کے ایسے دہشت گردانہ حملے کریں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسامہ بن لادن کی تخلیق کردہ اس دہشت گرد تنظیم کے عسکریت پسند پاکستان اور افغانستان کے متعدد علاقوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی موجود ہیں، جنہیں امریکی ڈرونز میں نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور اسی وجہ سے کسی منظم حملے کی بجائے اس گروہ نے شدت پسندوں کو ذاتی طور پر اس طرز کے حملوں کی ترغیب کی مہم شروع کر رکھی ہے۔